اس روز میرے ایک پڑھے لکھے بزرگ، جو ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد گاؤں میں رہائش پذیر تھے، مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ برسبیل تذکرہ اسلام کی بات چل پڑی۔ میں نے کہا:”چچا جان ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔”بولے:”کیا؟” میں نے کہا:”ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ ہم یہاں اسلام نافذ کریں گے اور اسلامی روایات کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
ہے نا؟” “بلکل۔” وہ بولے۔ “یہاں ہر شخص اس بات کا خواہش مند ہے اور ہر سیاسی پارٹی چاہتی ہے کہ اسلام نافذ ہو۔ آج پاکستان کو بنے چھیالیس سال ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک ہم اسلام نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ کتنی حیرت کی بات ہے۔ آخر کیوں؟ بات سمجھ میں نہیں آتی۔” چچا بولے:”بھئی جس علاقے میں، میں رہتا ہوں وہاں تو اسلام نافذ ہے۔” “کیا کہا؟” میں نے حیرت سے چلا کر پوچھا۔ بولے:”بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔” “آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟” میں نے کہا۔ “بلکل نہیں۔” وہ بولے۔ “لیکن کیسے؟” بولے:”مثلاً ہمارے گاؤں میں چار عورتیں بیٹھی کام کر رہی ہیں۔ پاس ایک بچہ کھیل رہا ہے۔ بچے کو ٹھوکر لگتی ہے، وہ گرنے لگتا ہے تو چاروں عورتوں کے منہ سے ان جانے میں نکلتا ہے، بسم الله! حالاں کہ بچے کے گرنے کا الله کے نام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ “مثلاً چار آدمی بیٹھے ہیں۔ کوئی شخص ایک خوب صورت چیز لا کر انہیں دکھاتا ہے تو ان جانے میں سب چلا کر کہتے ہیں، سبحان الله! “کوئی شخص چیز کی تعریف نہیں کرتا، چیز بنانے والے کی تعریف نہیں کرتا، سب الله کی تعریف کرتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ بھئی الله کہاں سے آگیا؟ الله کا کیا مطلب ہے؟ لیکن الله آجاتا ہے۔ لوگوں کے اندر والے خانے سے باہر نکل آتا ہے۔” “بچے کو چپ کرانا ہو تو “الله ہو، الله ہو” کا ورد کرتے ہیں۔ بچے کو رونے سے چپ کرانے کے لیے الله کو بلانے کا کیا مطلب؟ کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں۔”
چچا بولے۔ “وہاں تو بات بات پر الله دلوں سے نکل کر ہونٹوں پر آجاتا ہے۔ ماشاءاللہ! انشاءاللہ!، استغفراللہ! لاحول ولا! الله کرے! خدانخواستہ!” چچا ہنسے۔ “لوگوں کے دلوں میں الله اس طرح سمایا ہوا ہے جیسے گوندھے آٹے میں پانی۔” “اور جانتے ہو؟” وہ بولے۔ “یہ سب کس نے کیا ہے؟ صوفیوں نے۔ انہوں نے ہمارے Unconscious۔۔۔۔ کیا کہتے ہو تم اسے؟” چچا نے پوچھا۔ “لاشعور۔” میں نے جواب دیا۔
“صوفیوں نے ہمارے لاشعور کے پنجرے میں الله کا میاں مٹھو بند کردیا ہے۔ ہم ان جانے میں الله کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں، ان جانے میں الله کے حضور دعائیں مانگتے رہتے ہیں، ان جانے میں اپنی امیدیں اس پر استوار کئے بیٹھے ہیں۔” چچا رک گئے۔ کچھ دیر تک خاموش بیٹھے رہے پھر بولے:”صرف لاشعوری ہی نہیں، شعوری طور پر بھی الله ہمارے ذہن سے نہیں نکلتا۔
کسان صبح اٹھ کر جب آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو وہ آسمان کو نہیں دیکھتا اسے احساس ہوتا ہے کہ آسمان کے پیچھے الله بیٹھا ہوا ہے۔ وہ بادلوں کی طرف نہیں دیکھتا، اسے احساس ہے کہ الله بادل لاتا ہے، الله مینہ برساتا ہے، الله ہوا چلاتا ہے۔ وہ الله کے حوالے کے بغیر کچھ نہیں دیکھتا۔ موسم بذات خود اس کے لیے کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ بدبختی، خوش بختی، غمی، رزق سب کے پیچھے الله موجود ہوتا ہے۔” کچھ دیر کے لیے وہ رک گئے، پھر بولے: “اب تم ہی بتاؤ کہ اس کے علاوہ اسلام کا نفاذ اور کیا ہوگا؟”