مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب، شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات میں لکھتے ہیں ’’اکوڑہ خٹک کے ایک حاجی صاحب حج مبارک سے واپس تشریف لائے تو حضرت اقدس کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ ماء زمزم کا ذکر چھڑا تو حضرت شیخ الحدیثؒ (مولانا عبدالحق صاحب) نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ماء زمزم میں برکت، شفائیت اور غذائیت رکھی ہے آج کل ہماری ایمانی قوتیں کمزور ہو چکی ہیں،
اس لئے وہ برکتیں بھی ظاہر نہیں ہوتیں، ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب مکہ معظمہ میں نہ ہسپتال تھے نہ ڈاکٹر اور نہ طبیب! ایک ڈاکٹر نے کسی دوسرے ملک سے مکہ معظمہ میں آ کر مطب کھول دیا مگر اس کے پاس کوئی ایک مریض بھی علاج کے لئے نہ آیا جب ڈاکٹر کو مایوسی ہوئی اور وجہ دریافت کی تب معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں سحری کے وقت آبِ زمزم کے کنوئیں کا منہ کھولا جاتا تھا اور لوگ اپنے اپنے برتن پانی سے بھر لیتے تھے اور وہی اپنی اپنے مریضوں کو پلاتے جس سے مریض شفایاب ہو جایا کرتے تھے۔ ہمارے استاد شیخ العرب والحجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ مظفر نگر کا ایک سفید ریش ڈاکٹر جب مکہ معظمہ میں زمزم کے کنوئیں پر جاتا تو پانی پیتے وقت یہ دعا کیا کرتا تھا کہ ’’یا اللہ! میری داڑھی کے بال سیاہ کر دے‘‘۔ دس پندرہ روز بعد اس کی داڑھی میں سیاہ بال آنا شروع ہوگئے۔ ڈاکٹر جب تک وہاں رہا یہی معمول جاری رہا، اچانک کسی ضرورت سے واپس ہوئی ، جب گھر لوٹا تو داڑھی میں آدھے بال سیاہ ہو چکے تھے، اس ڈاکٹر صاحب کو میں نے شیخ مدنیؒ کی مجلس میں دیکھا تھا، جب وہ آئے تو حضرتؒ نے ہمیں اس کاتعارف کرایا تھا، یہ تو ہمارے اساتذہ کرام کے دور کی بات ہے، رونا بھی آتا ہے اور افسوس بھی، کہ آج مسلمان، اسلام اور اس کی تعلیمات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، قلوب میں اسلامی احکام کی عظمت باقی نہیں رہی، اس لئے خدا تعالیٰ نے وہ برکات اور نتائج بھی لے لئے ہیں جو اگلوں پر ہوا کرتے تھے‘‘۔