چند ایک قدم چل کر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں لوگ نماز جنازہ کے لیے جمع ہو چکے تھے آگے چارپائی دھری تھی جس پر وہ شخص (احمد ندیم قاسمی) مردہ حالت میں پڑا تھا جس کی نماز جنازہ پڑھائی جانے والی تھی لیکن میں نے آگے بڑھ کر چہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
کیونکہ یہ وہی چہرہ تھا جو کہ میں پچھلے پینتیس چالیس برس سے دیکھتا آیا تھا کیونکہ یہ شخص چہرہ بدلنے والوں میں سے نہیں تھا تو مر کر بھی ویسا ہی ہوگا جیسا زندگی میں تھا۔ البتہ سب لوگ بہت دیر تک نماز جنازہ پڑھنے کیلئے صفیں بنائے کھڑے رہے جانے کس کا انتظار تھا؟ پھر اسکی بیٹی آتی دکھائی دی میں نے اس کی جانب نہیں دیکھا کیونکہ باپ کی موت پر جو حال بیٹی کا ہوتا ہے یہ میں جانتا ہوں کہ نا وہ بیٹے کا ہوتا ہے اور نا ہی کسی اور عزیز کا۔ جب کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ایک روز میں نے بھی مرجانا ہے تو مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ میری بیٹی کا کیا حال ہوگا اور تب میں مرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ جتنا روئے گی مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔ صرف اسلئے میں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ تونے جب مجھے مارنا ہو تو صرف ایک دن کی رعایت دینا اس روز نہ مارنا جس روز میرے نصیب میں لکھا ہے اس سے اگلے روز مارنا تاکہ کم از میری بیٹی ایک اور دن تو نہ روئے۔