سعید انور 90 کی دہائی کا کرکٹ کی دنیا کا بلامبالغہ سب سے خطرناک اوپننگ بیٹسمین ہوا کرتا تھا۔ دنیا کی تمام ٹیموں کے خلاف، تمام گراؤنڈز میں اس نے ہر باؤلر کی کھل کر دھلائی کی۔ 90 کی دہائی میں ہی وسیم اکرم کے کپتانی سنبھالتے ہی ہماری ٹیم کو میچ فکسنگ کی لت بھی لگ گئی۔ ٹیم میں ہر وقت 4 سے 6 ایسے کھلاڑی لازمی شامل رھے جو ہر وقت بکیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔
1999 کے ورلڈ کپ میں وسیم اکرم کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم ہارٹ فیورٹ تھی جو لیگ میچوں میں سب کو ہراتی ہوئی فائنل میں پہنچ گئی جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا سے تھا۔ اس میچ پر ساری دنیا میں جوا کھیلا گیا اور پاکستان کو تمام بکیوں نے فیورٹ قرار دیا۔ فائنل کی کمنٹری کیلئے انڈین پلئیر راحل ڈریوڈ کو خصوصی طور پر بلایا گیا جس نے میچ شروع ہونے سے قبل پاکستان کو فیورٹ قرار دیا۔ تمام ماحول بن چکا تھا۔ پاکستانی ٹیم جب بیٹنگ کرنے آئی تو اوپنر سعید انور اپنے روائتی انداز میں کھیل رہا تھا۔ پھر چند اوورز کے بعد اچانک اس نے اپنے بیٹ کی گرپ کو اوپر نیچے کرنا شروع کردیا۔ ایک دو گیندیں کھیلنے کے بعد اس نے پویلین کی طرف اشارہ کیا اور پھر بارھواں کھلاڑی ایک نیا بیٹ لے کر اس کے پاس آگیا، چند سیکنڈ کھسر پھسر ہوئی اور دنیا نے یہی سمجھا کہ پویلین سے کچھ انسٹرکشنز ملی ہیں۔ اگلی گیند پر سعید انور ایک غیرضروری شارٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوگیا۔ پھر ہماری ٹیم کی لائین لگ گئی اور ہم یہ فائنل یکطرفہ مقابلے کے بعد ہار گئے۔ کہا جاتا ھے کہ اس میچ سے سعیدانور سمیت ٹیم کے اہم کھلاڑیوں نے کروڑوں روپے بنائے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ تھوڑے عرصے بعد سعید انور کی چھ سالہ بیٹی کو ایک موذی مرض نے گھیر لیا اور وہ معصوم بچی چند ہفتوں کے اندر اندر اللہ کو پیاری ہوگئی۔ سعید انور کو اپنی اس بچی کی ناگہانی موت نے اندر سے توڑ پھوڑ دیا۔ وہ انتہائی خطرناک حد تک ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور اس نے ایک آدھ مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی۔
پھر اس کا ایک دوست اسے ایک دن شب جمعہ تبلیغی مرکز پر لے گیا۔ سعید انور نے رات وہیں گزاری اور بہت دنوں بعد اسے سکون قلب حاصل ہوا۔ اس رات سعید انور کی کایا پلٹ گئی اور اس نے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور مکمل طور پر تبلیغ کیلئے وقف ہوگیا۔ سعید انور نے اپنے قریبی دوستوں بشمول ثقلین مشتاق، مشتاق احمد، انضمام اور وقار یونس کو بھی دین کی طرف راغب کرلیا اور یوں ہماری ٹیم میں چھوٹی چھوٹی داڑھیاں رکھے، نماز پڑھنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بڑھ گئی۔
انہیں دنوں جنید جمشید بھی ہر طرح سے نقصان میں جارہا تھا اور ان کا دل بھی میوزک سے اچاٹ ہونے لگا۔ وہ ایک مشترکہ دوست کے زریعے سعید انور سے ملا اور پھر جنید جمشید کی کایا بھی پلٹ گئی۔ اس سال حج کے موقع پر جنید جمشید اور سعید انور مکہ میں ایک ہی کیمپ میں تھے، جب سعید انور جنید جمشید کے پاس آیا اور اسے کہا کہ دسمبر میں وہ تبلیغی جماعت کی نصرت کیلئے چترال جارہا ھے اور وہ جنید جمشید کو اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔ جنید جمشید ایک انتہائی نفیس شخص تھا جو کبھی نہ نہیں کرتا تھا۔ اس نے حامی بھر لی۔
سفر سے واپسی پر جنید جمشید کی شہادت ہوئی، یہ وہی سفر تھا جس کا پلان حج کے دوران بنا، یعنی اللہ نے مکہ میں ہی اسے اپنے پاس بلانے کا عندیہ دے دیا تھا۔ 6 سالہ معصوم بچی کی اچانک وفات نے کتنے لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ زندگی میں ہونے والے نقصانات اور سانحات اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی عظیم انعام بھی لے کر آتے ہیں جو صرف شعور کی قوت رکھنے والوں کو ہی نظر آسکتا ھے۔ یہ پیغام سعید انور کو نظر آگیا، یہی پیغام جنید جمشید کو بھی مل گیا۔ یہ سعادتیں قسمت والوں کو ملتی ہیں۔
کسی کو اولاد کا غم ملا تو وہ اللہ کا برگزیدہ بندہ بن گیا۔ کسی کو سب نعمتیں ملیں لیکن وہ پھر بھی اپنی اولاد کو حرام کھلا کر پالتا رہا اور ذلیل و خوار ہوتا رہا۔ عزت اور ذلت، کامیابی اور ناکامی، عظمت اور پستی، یہ سب اللہ نے آپ کی دسترس میں رکھی ہیں، آپ جسے چاہیں، آگے بڑھ کر اٹھا لیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ھے کہ آپ اپنے لئے عزت، کامیابی اور عظمت کا انتخاب کرتے ہیں یا ناکامی، رسوائی اور ذلت کا۔