کابل (آئی این پی )شدت پسند تنظیم داعش نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مشرقی افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول ایک ضلع پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا ہے،صوبہ ننگرہار کے علاقے چپرھار پر قبضے کے لیے رات بھر لڑائی جاری رہی ، دس طالبان جنگجو مارے گئے تین دشمن جنگجوں کو زندہ پکڑ لیا دیگر جنگجو علاقہ چھوڑ کر فرار ہو گئے،ائی میں ہلکے اور بھاری ہتھیار استعمال کیے گئے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق دہشت گرد گروپ نے اپنی خبر رساں ایجنسی “عماق” کے ذریعے جاری ایک بیان میں کہا کہ صوبہ ننگرہار کے علاقے چپرھار پر قبضے کے لیے رات بھر لڑائی جاری رہی جس میں دس طالبان جنگجو مارے گئے۔داعش نے مزید کہا کہ تین دشمن جنگجوں کو زندہ پکڑ لیا گیا جب کہ دیگر جنگجو علاقہ چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ شدت پسند تنظیم کے بقول لڑائی میں فریقین کی طرف سے ہلکے اور بھاری ہتھیار استعمال کیے گئے۔تاحال طالبان نے اس لڑائی کے دعوے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔صوبائی حکومت کے ایک ترجمان عطااللہ خوگیانی نے مخالف عسکریت پسند گروپوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لڑائی میں طالبان کے 21 اور داعش کے سات عسکریت پسند مارے گئے۔خوگیانی کے بقول عام شہری بھی اس لڑائی کی زد میں آئے جس سے تین افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ان تمام دعوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔دریں اثنا طالبان اور داعش دونوں ہی پیر کو ننگرہار کے ضلع بتی کوٹ میں ایک امریکی فوجی قافلے پر ہونے والے خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کر رہے ہیں۔دونوں گروپوں نے ہی اپنے اپنے طور پر جاری کردہ بیانات میں اس واقعے کی تقریبا ملتی جلتی معلومات فراہم کیں اور دعوی کیا کہ اس دھماکے میں کم از کم چھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
امریکی فوج نے اتحادی افواج کے قافلے پر ہونے والے حملے کی تصدیق کی ہے لیکن اس کے بقول واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور یہ اچین ضلع کے قریب پیش آیا جو کہ افغانستان میں داعش کا مرکزی گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔افغانستان میں امریکی فورسز کے ایک ترجمان کیپٹن بل سالوون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “ہم یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین میں ایک کاربم حملہ ہوا۔ ایک گاڑی کو نقصان پہنچا لیکن اس میں اتحادیوں کا کوئی اہلکار ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔اچین وہ علاقہ ہے جہاں گزشتہ ہفتے غاروں اور سرنگوں پر مشتمل عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف ایک مشترکہ کارروائی میں دو امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
پینٹاگان کے حکام کا کہنا تھا کہ انھیں شبہ ہے کہ اس پہاڑی ضلع کی مہمند وادی میں تین گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں داعش کا چیف عبدالحسیب بھی دیگر 35 شدت پسندوں کے ساتھ مارا گیا۔لیکن بظاہر امریکی اور افغان فورسز کی طرف سے افغانستان میں داعش کے سربراہ کی ہلاکت سے ملنے والی کامیابی کے باوجود چند سوالات بدستور موجود ہیں۔داعش کا یہ مرکزی کمپلیکس غاروں اور سرنگوں پر مشتمل اس کمپلیکس سے محض دو کلومیٹر ہی دور ہے کہ جسے دو ہفتے قبل امریکہ کے سب سے بڑا غیرجوہری بم سے نشانہ بنایا تھا۔حکام کا کہنا تھا کہ اس حملے میں داعش کے 92 جنگجو مارے گئے، گو کہ لگ بھگ آٹھ سو کے قریب جنگجو اس علاقے میں موجود رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے اس وقت کہا تھا کہ یہ (بم )ہدف کے خلاف درست ہتھیار تھا۔دشمن نے بنکرز، سرنگیں اور وسیع پیمانے پر بارودی سرنگیں بنا رکھی تھیں اور یہ بم اس لیے استعمال کیا گیا تاکہ یہ رکاوٹیں کم کی جائیں اور ہم اپنی کارروائی جاری رکھ سکیں۔تاہم ان دعوں کے باوجود دیگر حکام کا کہنا ہے کہ تاحال یہ واضح نہیں کیا آیا اس بم حملے سے داعش کی اس علاقے میں سرگرمیوں پر کوئی قابل ذکر اثر پڑا یا نہیں۔