اتوار‬‮ ، 20 اپریل‬‮ 2025 

حضور اکرم ﷺ کے دور میں ہی کس جنگ میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے تھے؟

datetime 16  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

غزوۂ تبوک کے زمانے میں مسلمانوں کے دو گروہ تھے:
الف: کامل الایمان، قلوب نور ہدایت سے منور رواں رواں ایمان کی روشنی سے پر ضیا۔
ب: طمع اور خوف کی وجہ سے اسلام کا اقرار کرنے والے! لالچ تھا اس مال سے حصہ لینے کا جو ان قبائل سے حاصل ہوتا جنہوں نے نہ تو اسلام قبول کیا تھا نہ انہیں مسلمانوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت تھی، اور آخر ناچار انہیں جزیہ دینا پڑتا۔ اور خوف تھا اس قسم کے (نام نہاد) کلمہ گویوں کو خالص مسلمانوں کی اس

سطوت کا۔ جس کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ان کے مقابلہ پر صف آرا نہ ہونا چاہتا۔ (یعنی مدینہ کے یہ منافق اب تک اس لئے ظاہری اسلام اور باطنی کفر پر جمے ہوئے تھے کہ اگر اسلام سے انکار کرتے ہیں تو مسلمانوں کی آمدنی میں سے حصہ ایک طرف، الٹا جزیہ دینا پڑتا ہے۔ اور مقابلہ کرتے ہیں تو مدینہ کے یہودیوں کی طرح استیصال ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے پہلے گروہ (الف) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک کی دعوت پر بلا تامل لبیک کہا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے بعض حضرات ناداری کے ہاتھوں اتنے طویل سفر کے لئے اپنے لئے سواری کے انتظام سے قاصر تھے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے رضا و رغبت کے ساتھ اپنے اموال میں سے کثیر حصہ پیش کر دیا۔ ان لوگوں کے مد نظر راہ خدا میں فائز بہ شہادت ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب اور حضوری تھا۔مگر دوسرا حریص و طامع گروہ جہاد کے نام سے جن کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر حیلہ سازی پر اتر آیا۔ باہم سرگوشیاں کرنے لگے۔ موسم گرما اور بعد مسافت کی وجہ سے جہاد پر تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ یہ منافقوں کا طائفہ تھا۔ ان کے اسی معاملہ میں سورۂ توبہ نازل ہوئی جس میں ایک طرف جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت و اصابت اور اس کا دوسرا پہلو مسلمان کہلا کر رسول کی اس دعوت سے انکار پر تعذیب کا خوف دلانا مقصود تھا۔
اس دعوت کے موقع پر منافقین نے ایک دوسرے سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایسی گرمی میں گھر سے نہ نکلنا یعنی
لا تنفروا فی الحر (81:9)
جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وقالوا لا تنفروا فی الحرقل نار جھنم اشد حرالو کانو یفقھون فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیراً جزاء بما کانو یکسبون(82-81:9)
اور لوگوں کو بھی سمجھانے لگے کہ ایسی گرمی میں (گھر سے) نہ نکلنا! اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! (ان لوگوں سے) کہو کہ گرمی تو آتش دوزخی کی بہت زیادہ ہے۔ اے کاش! ان کو اتنی سمجھ ہوتی تو (ایک دن ہو گا کہ) یہ لوگ ہنسیں گے کم اور روئیں گے بہت (اور یہ) بدلہ(ہو گا) ان اعمال کا جو (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔
حوالہ :حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
صلحِ حدیبیہ سے وفات ابراہیمؓ تک
مصنف: محمد حسین ہیکل

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ڈیتھ بیڈ


ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…