سمائل حسن 1999ءمیں کراچی میں پیدا ہوا‘ خاندان مڈل کلاس تھا‘ والد سید تطہیر ممتاز کراچی کی کسی تعمیراتی کمپنی میں کنسٹرکشن منیجر تھے‘ یہ چھ بچوں کے والد تھے‘ گزارہ مشکل سے ہوتا تھا‘ سمائل کو بچپن سے ویڈیو گیمز کا شوق تھا‘ یہ نیٹ کیفے میں بیٹھ کر آن لائین گیمز کھیلتا تھا‘ یہ سات سال کی عمر تک آن لائین گیمز کا ایکسپرٹ ہو گیا‘ یہ کمپیوٹر خریدنا چاہتا تھا لیکن والدین کمپیوٹر افورڈ نہیں کر سکتے تھے چنانچہ اس کا شوق نیٹ کیفے تک محدود ہو کر رہ گیا‘
سمائل نے سات سال کی عمر میں ڈوٹا گیم شروع کی‘ یہ گیم امریکی کمپنی ولوو کارپوریشن نے تیار کی تھی‘ گیم آن لائین کھیلی جاتی ہے‘ پانچ پانچ کھلاڑیوں کی دو ٹیمیں بنتی ہیں‘ یہ ٹیمیں گیم شروع کرتی ہیں اور پھر مہینوں تک کھیلتی چلی جاتی ہیں‘ یہ گیم گیم کم اور نشہ زیادہ ہے‘ یہ صبر اور تحمل کے بغیر کھیلی جا سکتی ہے اور نہ ہی جیتی جا سکتی ہے‘ سمائل نے سات سال کی عمر میں ڈوٹا شروع کی اور یہ چند ماہ میں گیم ایکسپرٹ بن گیا‘ یہ نونو گھنٹے کھیلتا تھا‘ کمپیوٹر لازم تھا چنانچہ سمائل نے اپنی سائیکل بیچی اور پرانا کمپیوٹر خرید لیا‘ یہ سکول کے بعد کمپیوٹر پر بیٹھ جاتا تھا اور سونے تک گیم کھیلتا رہتا تھا‘ ماں باپ کو اس کی یہ حرکت بری لگتی تھی‘ وہ اسے جی بھر کر ڈانٹتے تھے‘ اسے مار بھی پڑ جاتی تھی لیکن یہ ڈوٹا چھوڑنے کےلئے تیار نہیں تھا‘ والدین نے اس دوران اپنی ساری جمع پونجی اکٹھی کی اور یہ لوگ خاندان سمیت امریکا شفٹ ہو گئے‘ یہ شکاگو میں رہائش پذیر ہو ئے‘ سمائل امریکا میں نیا تھا‘ دوست بھی نہیں تھے اور معاشرہ بھی اجنبی تھا چنانچہ اس نے وہاں بھی ڈوٹا میں پناہ لے لی‘ یہ سارا سارا دن گیم کھیلتا رہتا‘ یہ قدرتی گیمر تھا‘ اس کا ذہن چند لمحوں میں ویڈیو گیم کی گتھیاں سلجھا لیتا تھا‘ یہ شکاگو میں گھر بیٹھ کر گیم کھیلتا رہا یہاں تک کہ یہ دنیا کا کم عمر ترین آن لائین گیمر بن گیا‘
یہ ٹائٹل اعزاز سے کم نہیں تھا‘ امریکا میں ”ایول جینئس“ کے نام سے ڈوٹا گیم کی ایک مشہور ٹیم ہے‘ 2015ءمیں چارلی یانگ اس ٹیم کا منیجر تھا‘ سمائل حسن بہت جلد اس ٹیم کی نظر میں آگیا‘ چارلی یانگ 2015ءکے شروع میں شکاگو گیا‘ سمائل اور اس کے والدین سے ملاقات کی اور اسے اپنی ٹیم میں شامل کر لیا‘ یہ ٹیم ڈوٹا ایشین چیمپیئن شپ کھیل رہی تھی‘ سمائل ٹیم میں شامل ہوا اور ٹیم نے یہ چیمپیئن شپ جیت لی‘ ٹیم کو دس لاکھ ڈالر انعام ملا‘ یہ آن لائین گیمنگ کی دنیا میں بڑی خبر تھی‘ سمائل پوری دنیا میں مشہور ہو گیا‘
امریکی جریدے ٹائم نے اکتوبر2016ءمیں اسے دنیا کے30 بااثر ترین نوعمر افراد میں شامل کر لیا‘ یہ بارہویں نمبر پر تھا‘ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اس فہرست میں اٹھائیسویں نمبر پر تھی‘ سمائل ڈوٹا گیم کھیلتا رہا‘ یہ انعامات بھی جیتتا رہا یہاں تک کہ 22 جنوری کو کروشیا میں ویڈیو گیم کا بین الاقوامی مقابلہ ہوا‘ یہ اس مقابلے میں شریک ہوا اور یہ دنیا کا تیسرا امیر ترین گیمر بن گیا‘ سمائل نے ویڈیو گیم کے مقابلے میں 24 لاکھ ایک ہزار 5 سو ڈالر کمائے‘ یہ رقم پاکستانی روپوں میں 25 کروڑ روپے بنتی ہے اور یہ 18 سال کے ایک پاکستانی نوجوان کی ذاتی کمائی ہے۔
یہ نوجوان اس ملک سے تعلق رکھتا ہے جس میں اس وقت ساڑھے تین کروڑنو جوان بے کار بیٹھے ہیں‘ یہ تمام نوجوان نوکریوں کےلئے مارے مارے پھر رہے ہیں‘ ملازمت کا ایک اشتہار آتا ہے اور لاکھوں لوگ اپلائی کر دیتے ہیں‘ ملک میں چپڑاسی‘ نائب تحصیلدار‘ سب انسپکٹر اور کلرک کی آسامی کےلئے ایم اے اور ایم ایس سی نوجوانوں کی درخواستوں کا انبار لگ جاتا ہے‘ آپ کسی ایم پی اے‘ کسی ایم این اے کے دفتر چلے جائیں‘
آپ کو وہاں ہر دوسرا شخص نوکری کا متلاشی ملے گا‘ سمائل حسن نوکری کے متلاشی ان نوجوانوں کےلئے مشعل راہ ہے‘ یہ نوجوان 18 سال کی عمر میں دنیا کا تیسرا امیر ترین آن لائین گیمر بن کر پاکستانی نوجوانوں کو یہ پیغام دے رہا ہے‘ آپ درخواستیں دینا اور نوکری کے پیچھے بھاگنا بند کر دیں‘ آپ کوئی کام شروع کریں‘ آپ چند ماہ میں فیڈرل سیکرٹری سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہوں گے‘ سمائل حسن پاکستانی نوجوانوں کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے
دنیا بھر کی مارکیٹیں‘ کمپنیاں اورادارے گلیوں‘ بازاروں اور انڈسٹریل سٹیٹس سے انٹرنیٹ پر شفٹ ہو چکے ہیں‘ یہ تمام آن لائین ہیں‘ دنیا میں انٹرنیٹ نے غلامی اور ملازمتوں کی زنجیریں توڑ دی ہیں‘ دنیا نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے‘ ایک ایسا عہد جس میں ملازم ملازم نہیں ہیں یہ ساتھی‘ پارٹنر اور باس بن چکے ہیں‘ آپ انٹرنیٹ کھولیں‘ اپنی فیلڈ منتخب کریں‘ کام شروع کریں اور آپ چند ماہ میں کروڑ پتی بن جائیں‘ آپ کو کسی دفتر‘ کسی دکان اور کسی فیکٹری پر جانے کی ضرورت نہیں‘
یہ نوجوان پاکستانیوں کو بتا رہا ہے دنیا کی چالیس فیصد دولت آن لائین کمپنیوں کی جیب میں شفٹ ہو چکی ہے‘ فیس بک دنیا کے ڈیڑھ ہزار شعبوں کےلئے چیلنج بن چکی ہے‘ یہ میڈیا انڈسٹری کو کھا گئی ‘ دنیا میں اخبارات‘ جرائد اور میگزینز کی اشاعت دس فیصد رہ گئی ‘ ٹیلی ویژن چینلز ٹی وی سکرین سے موبائل فون کی سکرین پر شفٹ ہو رہے ہیں اور ٹیلی فون کالز‘ ای میلز اور خطوط کی پوری انڈسٹری فیس بک کے پیٹ میں منتقل ہو گئی‘
یوٹیوب سینما‘ موسیقی‘ تعلیم‘ ٹیکنیکل ایجوکیشن‘ فیشن‘ میک اپ‘ تعمیرات‘ میڈیکل‘ انجینئرنگ‘ لائبریری‘ ریفرنس اور کھانا بنانے سمیت ہزاروں شعبوں کو نگل گئی ہے‘ گوگل دنیا کی سب سے بڑی اشتہاری مشین بن چکا ہے‘ دنیا کے تمام بڑے برانڈز اور کمپنیاں ٹیلی ویژن اور اخبارات کی بجائے گوگل کو اشتہارات دیتی ہیں اور یہ اشتہارات چند سیکنڈز میں عوام تک پہنچ جاتے ہیں‘ لوگ خریداری کےلئے مارکیٹوں‘ شاپنگ مالز اور دوکانوں پر وقت ضائع نہیں کرتے‘
یہ آن لائین سٹورز پر جاتے ہیں‘ آرڈر دیتے ہیں اور مصنوعات ان کے گھر پہنچ جاتی ہیں‘ استاد اب ٹیوشن کےلئے شاگردوں کے گھر آنے کی بجائے سکائپ آن کرتے ہیں اور پڑھانا شروع کر دیتے ہیں‘ ڈاکٹرز نے بھی اپنی ویب سائیٹس بنا رکھی ہیں‘ مریض ویب سائیٹس پر فیس ادا کرتے ہیں‘ ڈاکٹر میلوں دور بیٹھ کر مریض کا معائنہ کرتے ہیں‘ دوا تجویز کرتے ہیں اور مریض کا علاج شروع ہو جاتا ہے‘ موبائل فون پر ایسی ایسی ایپلی کیشنز آ چکی ہیں جو آپ کو یہ تک بتا دیتی ہیں
آپ کو کھٹے ڈکار آ رہے ہیں اور آپ کو یہ کب تک آتے رہیں گے‘ یہ ایپس آپ کو یہ بھی بتا دیتی ہیں آپ نے دن بھر کتنے قدم اٹھائے اور آپ کو کس وقت کتنے قدم مزید اٹھانے چاہئیں‘ یہ آپ کو یہ بھی بتا دیتی ہیں آپ نے کتنی کیلوریز لیں‘ آپ نے ان میں سے کتنی خرچ کیں اور آپ کو مزیدکتنی خرچ کرنا ہوں گی‘ دنیا میں ایسی موبائل ایپس بھی موجود ہیں جو آپ کو فضول خرچی سے روکتی ہیں‘ جو آپ کو یہ بتا دیتی ہیں آپ کے پاس فلاں چیز موجود ہے‘ آپ کو اس چیز پر رقم برباد نہیں کرنی چاہیے‘
انٹرنیٹ پر ایک دنیا آباد ہے اور اس دنیا کو روز کروڑوں نئے ورکرز کی ضرورت پڑتی ہے‘ ہمارے بے روزگار نوجوان بڑی آسانی سے اس دنیا میں کھپ سکتے ہیں‘ سمائل حسن یہ پیغام بھی دے رہا ہے‘ آپ اگر چند برسوں میں پوری دنیا میں مشہور ہونا چاہتے ہیں‘ آپ چاہتے ہیں دنیا کے زیادہ تر لوگ آپ کے نام اور شکل سے واقف ہوں تو آپ انٹرنیٹ کی دنیا میں اتر جائیں‘ آپ اٹھارہ سال کی عمر میں ٹائم میگزین کی بااثر ترین شخصیات میں شامل ہو جائیں گے‘
آپ کا نام پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور سمائل حسن نے اپنی کامیابی کے ذریعے پاکستانی والدین کو بھی ایک پیغام دیا‘ یہ بتاتا ہے پاکستانی والدین کو اب نئی تبدیلیوں کو قبول کر لینا چاہیے‘ کمپیوٹر گیمز بری چیز نہیں ہیں‘ یہ دنیا کا بہت بڑا سورس آف انکم ہیں‘ یہ آپ کے بیٹے کو اٹھارہ سال کی عمر میں کروڑ پتی بھی بنا سکتی ہیں اور یہ اسے مشہور بھی کر سکتی ہیں‘ بس بچوں کا مقصد کلیئر ہونا چاہیے‘ ان کا گول صاف ہونا چاہیے اور یہ اس کے بعد سر نیچے کر کے ڈٹ جائیں ان کے راستے کھلتے چلے جائیں گے‘ یہ چند برسوں میں وہ سب کچھ پا لیں گے جس کےلئے لوگ پوری زندگی محنت کرتے ہیں۔
سمائل حسن ایک کیس سٹڈی ہے‘ یہ کیس سٹڈی پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں کی زندگی بدل سکتی ہے‘ یہ پاکستان کے ان نوجوانوں کی آنکھیں کھول سکتی ہے جو ملک کے مقدر سے مایوس ہو چکے ہیں‘ جو یہ سمجھتے ہیں پاکستانی ہونا بدنصیبی ہے‘ جو ملازمت کو کل زندگی سمجھ بیٹھے ہیں اور جو ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھا کر مارے مارے پھر رہے ہیں‘ ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے سرکاری اداروں کو سمائل حسن جیسے نوجوانوں کو کیس سٹڈی کی حیثیت دینی چاہیے‘ انہیں ماڈل بنا کر ملک کے بے روزگار نوجوانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے‘ یہ نوجوان مایوسی کے اندھے غار میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے نوجوانوں کو کامیابی کا راستہ دکھا دیں گے‘ یہ انہیں بتا دیں گے کامیابی کےلئے تین صلاحیتیں چاہئیں‘ محنت‘ ایمانداری اور ہنر‘ آپ یہ تین صلاحیتیں پیدا کر لیں‘ آپ کےلئے ہزاروں راستے کھل جائیں گے‘ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔