سبا کی ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں اپنی دانست میں گراں قدر نذرانہ روانہ کیا تھا۔۔ یہ نذرانہ چالیس اونٹوں پر مشتمل تھا جو سونے کی اینٹوں سے لدے ہوئے تھے۔ بلکہ بلقیس کے جو خادمین وہ نذرانہ لے کر حاضر ہوئے تھے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت میں پہنچ چکے تھے اور اس کے سونے کے فرش دیکھ کر ورطہ حیرت میں غوط زن تھے۔سونے کی اس قدر بہتات دیکھ کر ان کی نظر میں اپنے نذرانے کی وقعت کم ہو چکی تھی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے تھے کہ اس نذرانے کو حضرت سلیمان کے حضور پیش کرنے کی بجائے واپس لے جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا ، لیکن ما بعد وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہمیں نذرانے کی قدر و قیمت اور وقعت کی جانچ سر انجام دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم تو محض کارندے ہیں ہمیں کیا نذرانے بھیجنے والا جانے اور نذرانہ وصول کرنے والا جانے۔ لہذاانہوں نے نذرانہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا۔
آپ اس نذرانے کو دیکھ کر مسکرانے لگے اور فرمایا کہ :۔ ” مجھے دنیاوی مال و زر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تم مسلمان ہو جاﺅ اور سورج کی پرستش کرنے کی بجائے سورج بنانے والے کی پرستش کرو“۔ ّآپ نے ملکہ بلقیس کے کارندوں سے مزید فرمایا کہ اپنا نذرانہ واپس لے جاﺅ بلکہ میرے ملک سے بھی مزید سونا لے جاﺅ تاکہ تمہارے طمع اور لالچ میں کسی قدر کمی واقع ہو، اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سونے چاندی اور مال و دولت سے کوئی غرض نہیں ہے۔ لہذا تم یہ نذرانہ واپس لے جاﺅ اور اپنی ملکہ کو حقیقت سے آگاہ کرو کہ ہم نے چالیس منزل تک سونے پر سفر طے کیا تھا اور اسے یہ بھی بتاﺅ کہ ان حالات میں ہمیں سونے کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ندامت محسوس ہوتی تھی تاکہ اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ جائے کہ ہمیں اس کی دولت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے ایمان کی ضرورت ہے اور یہ عمل تمہارے حق میں بھی بہتر ثابت ہو گا اور تمہیں ایمان لانے کی توفیق نصیب ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کے حضور بھی سونے چاندی کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ زمین کو چاندی کی مانند بنا کر یہ ثابت کرے گا کہ اس کے دربار میں سونا چاندی بے معنی چیزیں ہیں۔ وہ تو انسان کو ایمان کی دولت سے مالا مال کرتاہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کے کارندوں سے مزید فرمایا کہ اپنی ملکہ سے کہو کہ وہ فوراًہجرت کر کے یہاں آجائے اور سورج کی پرستش چھوڑ کر میرا پیش کردہ دین حق قبول کرے کیونکہ اسی میں اس کی نجات ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ بلکہ بلقیس جس قدر جلد ممکن ہو یہاں آ جائے اور مسلمان ہو جائے وگرنہ اس کے حق میں بہتر ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہونے کے ناطے لوگوں کو اپنے دین کی دعوت پیش کرتا ہوں اور میں شہوت پرستی کے حوالے سے ملکہ بلقیس کو اپنے پاس آنے کی دعوت نہیں دے رہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت سے ملکہ بلقیس اور اس کی رعایا کے مقدر جاگ اٹھے۔
آپ نے ملکہ بلقیس اور اس کی رعایا کی رہنمائی فرمائی۔ ملکہ بلقیس کو ماسوائے اپنا تخت چھوڑنے اور کسی چیز کا افسوس نہ تھا۔ لہذا حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ کون ملکہ بلقیس کے تخت کو فوراًحاضر کرے گا۔ ایک جن نے جواب دیا کہ میں آپ کا دربار بر خاست ہونے سے قبل تخت یہاں حاضر کر دوں گا اللہ کے بر گزیدہ بندے نے کہا کہ میں آپ کی پلک جھپکنے تک تخت کو آپ کے دربار میں حاضر کروں گا۔ اللہ کے اس بر گزیدہ بندے کا نام حضرت آصف بر خیا تھا۔