امیر مہدی کے عہد میں کی دفعہ سخت قحط پڑا۔ ہر چند کہ امیر نے خزانے کا منہ فی سبیل اللہ کھول دیا اور غلہ کے انبار وقف عام کر دیئے۔ لیکن قحط کی مصیبت کم نہ ہوئی۔ اس سبب سے امیر کو خلقت کی یہ حالت دیکھ کر اپنی جان شیریں بھی تلخ معلوم ہوئی۔ نہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتا، نہ چین سے بچھونے پر سوتا۔ ایک روز بستر پر حیرت و حسرت زدہ سا لیٹا ہوا تھا۔ خادم پاس بیٹھا ہوا تھا۔
فرمایا کہ کوئی کہانی کہہ کہ دل بہلے اور کچھ غم غلط ہو۔ خادم نے کہا کہ غلام کی کہانی شہنشاہ کی سماعت کے کب لائق ہے۔ فرمایا مضائقہ نہیں، جیسے تجھے یاد ہو، بیان کر۔خادم کہنے لگا کہ ہند کی سرزمین کے کسی بیابان میں ایک شیر رہا کرتا تھا اور سب درندے جنگل کے اس کی خدمت میں حاضر رہے۔ ایک دن لومڑی نے اس شیر سے کہا کہ تو ہمارا بادشاہ ہے اور ہم تیری رعیت۔ بادشاہ پر رعیت کی رعایت بہرصورت لازم و واجب ہے۔ اب مجھے ایک ضروری سفر درپیش ہے۔ بغیر جانے کے بن نہیں پڑتی۔ مشکل یہ ہے کہ میرا ایک بچہ ہے میں چاہتی ہوں کہ وہ تیرے سپرد کر دوں تاکہ تو اس کو اپنی پناہ میں رکھے اور کسی دشمن کا چنگل اس تک نہ پہنچ پائے۔ شیر نے یہ بات قبول کی۔ لومڑی اپنا بچہ اس کے حوالے کر کے سفر پر روانہ ہو گئی۔ شیر نے اس بچے کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا تاکہ کوئی درندہ اسے گزند نہ پہنچا سکے۔ناگاہ ایک عقاب اپنا طعمہ تلاش کرتا ہوا اڑتا پھر رہا تھا۔ اس کی نگاہ لومڑی کے بچے پر پڑی اور شیر کی پیٹھ پر سے جھپٹا مار کر اس کے بچے کو لے اڑا۔ جب لومڑی سفر سے واپس آئی تو بچے کو نہ دیکھ کر شیر سے بولی ’’کیا تم نے یہ عہد نہ کیا تھا کہ میں تیرے بچے کی حفاظت قرار واقعی کروں گا‘‘۔ شیر نے کہا ’’البتہ میں نے ذمہ لیا تھا کہ
کوئی جانور زمین کا اس کا قصد نہ کر پائے لیکن جو بلائے ناگہانی آسمان کی طرف سےنازل ہو تو میرا کوئی ذمہ نہ تھا‘‘۔ امیر نے جب یہ کہانی یہاں تک سنی تو اٹھ بیٹھا اور رو رو کر جناب کبریائی میں التجا کرنے لگا کہ الٰہی! جو کچھ فتنہ فساد زمین سے اٹھے تو اسے دفع کروں۔ مگر قضائے آسمانی قدرت یزدانی میں بندہ ناچیز سے کیا ہو سکتا ہے۔ آخر چند روز میں وہ قحط اللہ کے فضل و کرم سے چند روز میں دفع ہو گیا۔