کابل/لندن (آئی این پی ) شدت پسند تنظیم داعش نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیوں کے باعث مغربی نوجوانوں کو ٹرمپ کے خلاف میدان جنگ میں اتارنے کا منصوبہ تیار کرلیا ۔افغانستان میں داعش کے کمانڈر ابو عمر خراسانی نے برطانوی خبررساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کو انٹرویو میں بتایاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف کھلے عام زہر افشانی کرکے ہمارا کام مزید آسان کردیا ہے، اب داعش ٹرمپ کی تعصب پرستانہ تقریروں اور حیران کن جیت کو ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف استعمال کرے گی۔داعش کمانڈر کا کہنا تھا کہ ‘ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریروں کے دوران سرعام مسلمان شدت پسندوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لوگوں سے شدت پسندوں کو شکست دینے کے وعدے بھی کیے مگر بنیاد پرست جنگجو اس سرد جنگ میں فتح حاصل کریں گے۔داعش کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا میں مسلمانوں کی آمد پر مکمل پابندی کا اعلان کیا تھا اور ان کے اسی اعلان کو بنیاد بنا کر ہم مغربی نوجوانوں کو داعش میں بھرتی کرکے ٹرمپ کے خلاف میدان میں اتاریں گے۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا میں مسلمانوں کی مکمل پابندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی میں ملوث تارکین وطن کو بھی ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم انھوں نے صدارتی مہم کے دوران انتہا پسندوں، جنگجوں، داعش، طالبان اور القاعدہ سے لڑنے کے حوالے سے اپنے منصوبے ظاہر نہیں کیے تھے۔عراق کے نامور شیعہ رہنما مقتدہ الصدر کا کہنا تھا کہ طالبان اور داعش کی طرح ان کی تنظیم مغرب پر حملے کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران انتہاپسندی اور جدید اسلامی رجحانات کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، ان کی نظر میں سب ایک جیسے ہیں۔سنی جہادی تنظیموں کے حوالے سے عراقی حکومت کے مشیر ہشام الہاشمی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد القاعدہ بھی وائٹ ہاس کے بیانات اور ٹرمپ کی تقریروں کے تناظر میں نئی بھرتیوں کی تیاریوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔داعش، القاعدہ اور طالبان جیسی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نئے محاذ کھولنے کے اعلان اور مغربی نوجوانوں کو بھرتی کرکے ٹرمپ کے خلاف میدان میں اتارے جانے کے اعلانات پر تاحال ٹرمپ آفس کی جانب سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا، جبکہ امریکی انتخابات میں جیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی تعصبانہ گفتگو میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔