اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اینگرو ایل این جی ٹرمینل کمپنی نے 400 ملین مکعب فٹ یومیہ ایل این جی کی درآمد کیلئے ملی بھگت سے وفاقی وزارت پٹرولیم سے تحریری معاہدے اور متعلقہ قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کی بجائے پورٹ قاسم پر پہلے سے موجود اپنی پرانی جیٹی کو ٹرمینل میں تبدیل کرلیا‘ اینگرو کمپنی نے ملک میں اربوں کی نئی سرمایہ کاری کی بجائے سارے فوائد خود ہی سمیت لئے ،وزارت پٹرولیم کی ایک اعلی شخصیت کے دباﺅ پر اوگرا نے پرانی ماحولیاتی سٹڈی کی بنیاد پر ٹرمینل اور ری گیسی فیکیشن کا لائسنس دے کر اضافی 200 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کی اجازت بھی دیدی۔ قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں ، اینگرو کو پورٹ قاسم اتھارٹی سے مووایبل ایف ایس آر یو کی اجازت کے ساتھ ساتھ سوئی سدرن گیس کمپنی سے 66 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو ( 2 لاکھ 92 ہزار 776 ڈالر یومیہ) کپیسٹی چارجز کی ادائیگی کیلئے پی ایس او کے کمفرٹ لیٹر کے بغیر 5 کروڑ ڈالر کی متبادل ایل سی کھلوادی ۔ وزارت پٹرولیم اور اوگرا کے ذرائع نے بتایا کہ 400 ملین مکعب فٹ یومیہ ایل این جی کی درآمد کیلئے پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر میں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں بلکہ اینگرو ایل این جی کمپنی نے وفاقی وزارت پٹرولیم کیساتھ ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کیلئے کئے گئے تحریری معاہدے کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ ذرائع کے مطابق اینگرو نے معاہدے کی رو سے پورٹ قاسم پر نیا ایل این جی ٹرمینل تعمیر کرنا تھا جو یومیہ 600 ملین مکعب فٹ ایل این جی کو ری گیسی فائی کرکے سسٹم میں شامل کرسکے لیکن اینگرو نے تحریری معاہدے اور متعلقہ قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے پورٹ قاسم پر پہلے سے موجود جیٹی کو ایل این جی ٹرمینل میں تبدیل کرلیا حالانکہ یہ جیٹی ایل پی جی کی درآمد کیلئے بنائی گئی تھی جبکہ قواعد و ضوابط کے برخلاف تازہ ماحولیاتی سٹڈی کرانے کی بجائے 2011ءمیں کرائی گئی پرانی ماحولیاتی سٹڈی کی بنیادی پر اوگرا سے ایل این جی ٹرمینل اور ری گیسی فیکیشن کا لائسنس حاصل کیا اور پورٹ قاسم اتھارٹی سے پرانی جیٹی کو ایل این جی ٹرمینل میں تبدیل کرنے کی اجازت بھی لے لی۔ ذرائع نے بتایاکہ وفاقی وزارت پٹرولیم کی اعلی شخصیت نے چیئرمین اوگرا سعید احمد خان پر دباﺅ ڈال کر اینگرو کا لائسنس جاری کرایا اور انہیں تازہ ترین ماحولیاتی سٹڈی طلب کرنے سے منع کردیا۔ نیز اعلی شخصیت نے پورٹ قاسم اتھارٹی کے حکام پر بھی دباﺅ ڈالااور اینگرو کی پرانی جیٹی کو ایل این جی ٹرمینل میں تبدیل کرنے کا تحریری اجازت نامہ دلوایا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں ایل این جی کی ری گیسی فیکیشن کیلئے فکسڈ ایف ایس آر یو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی انشورنس کمپنی سے انشورنس کرائی جاتی ہے۔نیز اوگرا کے قواعد و ضوابط میں بھی فکسڈ ایف ایس آر یو کی اجازت ہے۔ اس کے برعکسوزارت پٹرولیم کی اسی اعلی ترین شخصیت کے دباﺅ کے نتیجے میں اوگرا نے اینگرو کو استعمال شدہ مووایبل ایف ایس آر یو لانے کی اجازت دےدی جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی سے بھی این او سی دلوادیا گیا کیونکہ اینگرو ایل این جی کمپنی لیز پر مووایبل ایف ایس آر یو لانا چاہتی تھی جبکہ فکسڈ ایف ایس آر یو نصب کرنے کیلئے بھاری سرمایہ کاری درکار تھی۔ علاوہ ازیں وزارت پٹرولیم نے جب اپنے سابقہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے 600 کی بجائے 400 ملین مکعب فٹ یومیہ ایل این جی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تو بقیہ 200 ملین مکعب فٹ یومیہ ایل این جی اینگرو ایل این جی کمپنی کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی جبکہ اس پر بھی اینگرو کو پانچ سال کیلئے ہر قسم کے ٹیکسوں کی سو فیصد چھوٹ حاصل ہوگی۔حالانکہ قانون کے مطابق اس کیلئے نئے معاہدے کی ضرورتتھی ۔ نیز اینگرو کے مطالبے پر وزارت پٹرولیم نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایت کی کہ66سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یوکپیسٹی چارجزجو یومیہ 2 لاکھ 92 ہزار 776 ڈالر بنتے ہیں‘ کی ادائیگی کیلئے 5 کروڑ ڈالر کی ایک متبادل ایل سی بینکوں میں کھلوائے جس کے ذریعے اینگرو ایل این جی کمپنی اپنے کیپیسیٹی چارجز براہ راست وصول کرسکے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق متبادل ایل سی کھلوانے کیلئے سٹیک ہولڈر (پی ایس او) کا کمفرٹ لیٹر ضروری تھا جبکہ وزارت پٹرولیم کے دباﺅ پر سوئی سدرن گیس کمپنی نے پی ایس اوکے کمفرٹ لیٹر کے بغیر 5 کروڑ ڈالر کی متبادل ایل سی بینکوں میں کھلوائی جبکہ وزارت پٹرولیم کی ایک اعلی شخصیت نے سابقہ قائم مقام ایم ڈی پی ایس او امجد پرویز جنجوعہ پر دباﺅ ڈال کر بعد میں کمفرٹ لیٹر جاری کروایا۔