جناب رسول کریم ﷺ کے شہزادے حضرت امام حسین کی شہادت کا واقعہ یقیناً کچھ ایسا ہی دردناک ہے مگر جس قدر صبر کی تلقین ہمیں دنیا کےاس عظیم سانحے سے ملتی ہے وہ بے نظیر ہے ۔ حضرت امام حسین ؑ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان کو ہوئی ۔ فاطمہ ؓ کے گھر ننھے دلارے کی خبر سن کر ہادی برحق ﷺ علی المرتضیٰؓ کے گھر تشریف لائے اور اپنے لعل کو گود میں لے کر ان کے داہنے کان میں اذان
اور بائیں کان میں اقامت کہہ کر اپنی زبا ن مبارک ان کے منہ میں دی اور یوں نبیوں کے تاجدار ﷺ کا لعاب دہن ننھے حسین ؑ کی گھٹی بنا ۔ آپ کا عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کیا گیا ۔حضرت امام حسینؑ کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی کہ سن کر ہی رشک آتا ہے ۔ خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ، شیر خدا حضرت علی ابن ابی طالب ، جگر گوشہ رسول ﷺ سیّدہ فاطمة الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے اساتذہ تھے ۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام حضور نبی کریم ﷺ جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہراؓ جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں ، ایسے خوبصورت اور نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔ نبی اکرم ﷺ حضرت امام حسین ؑ کے ساتھ بے انتہا محبت رکھتے تھے ۔ نانا کے لاڈ اور پیار سے پلے حضرت امام حسین ؑ اپنے نانا کے کاندھوں پر سوار ہو جاتے ، کبھی نبی کریم ﷺ حضرت امام حسین کو سینہ پر سوار کرتےکبھی ایسا بھی ہوتا کہ حسین ؑنماز کی حالت میں اپنے نانا کے کاندھوں پر سوار ہو جاتےاور آپ ﷺ ان کی وجہ سے اپنا سجدہ طویل کر دیتے ۔ ایک بار جب حسین ؑ حالت نماز میں حضور ﷺ کے کاندھے پر سوار ہوئے اور حضور ﷺ نے سجدہ طویل کر دیا ، تو نماز سے فارغ ہو کر حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے مخا طب ہو کر فرمایا کہ ’’دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو‘‘۔