یہ کالم ایکسپریس میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے پورا شائع نہیں ہو سکا‘ آپ مکمل کالم ملاحظہ کریں۔
بلتت فورٹ ہنزہ کا دوسرا قلعہ ہے‘ یہ قلعہ شہر کے بالائی حصے میں پہاڑوں کے دامن میں پناہ گزین ہے
آپ کو محل تک پہنچنے کےلئے گلیوں کے اندر چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے اور یہ ہم جیسے شہریوں کےلئے جان جوکھوں کا کام ہے لیکن آپ اگر سانس سنبھال کر محل تک پہنچ جائیں تو آپ کو وہاں مایوسی نہیں ہوتی‘ محل آپ کو مبہوت کر دیتا ہے‘ محل کی پچھلی دیوار کے ساتھ ماضی میں گلیشیئر ہوتا تھا‘ ماضی کے حکمرانوں نے پچھلی دیواروں کے ساتھ قدرتی فریج بنا رکھے تھے‘ گلشیئر کی ٹھنڈی ہوائیں برفیلے غاروں سے ہوتی ہوئیں چھوٹے چھوٹے کمروں تک پہنچتی تھیں اور یہ ان کمروں کو فریج کی طرح ٹھنڈا کر دیتی تھیں‘ میر آف ہنزہ ان کمروں میں کھانے کی اشیاءسٹور کرتے تھے‘ اس قسم کا ایک کمرہ مین کچن کے ساتھ بھی تھا‘ میں نے اندرہاتھ ڈال کر دیکھا‘ وہ آج بھی دوسرے کمروں کی نسبت ٹھنڈا تھا‘ میر آف ہنزہ کے بیڈ روم میں ایک تنور نما گڑھا تھا‘ گائیڈ نے بتایا یہ تنور میر کی ”وائن کیبنٹ“ تھی‘ بادشاہ یہاں اپنی شراب سٹور کرتا تھا‘ یہ ”تنور“ بھی قدرتی فریج تھا‘ یہ گرم مشروب کو ٹھنڈا رکھتا تھا‘ بادشاہ کی نشست کے سامنے ”ریمپ“ تھا‘ فریادی اور عوامی نمائندے ریمپ کے آخری سرے پر کھڑے ہوتے تھے‘ ریمپ کے نیچے سوراخ تھا‘ سوراخ پر لکڑی کا دروازہ تھا‘ فریادی بادشاہ سے مخاطب ہونے سے پہلے دروازہ اٹھا کر سوراخ میں نذرانہ ڈالتا تھا‘ یہ نذرانہ عموماً گندم‘ جو اور خشک خوبانیوں کی صورت میں ہوتا تھا‘ بادشاہ نذرانے کی وصولی کے بعد فریادی کو بولنے کا اشارہ کرتا تھا‘ ریمپ کے ساتھ پرانے زمانے کے پیمانے رکھے تھے‘ یہ پیمانے ناپ تول کے کام آتے تھے‘ بادشاہ بعض اوقات نذرانہ ناپنے اور تولنے کا حکم بھی جاری کر دیتا تھا اگر نذرانہ دینے والی کی استطاعت سے کم ہوتا تھا تو بادشاہ ناراض ہوجاتا تھایوں فریادی کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑ جاتا تھا‘محل کے نیچے بڑے بڑے گودام تھے‘
یہ نذرانے ان گوداموں میں پہنچ جاتے تھے اور بادشاہ اور اس کے سٹاف کے کام آتے تھے‘ ہنزہ کے لوگ اس زمانے میں پتھر کے برتنوں میں کھانا پکاتے تھے‘ محل کے شاہی باورچی خانے میں قدیم زمانے کے توے‘ کڑاہیاں اور دیگچیاں رکھی ہیں‘ یہ پتھر کی بنی ہیں اور یہ پرانے زمانے کے لوگوں کی ہنرمندی کی ضامن ہیں‘ وہ لوگ کدو کے جگ‘ گلاس اور صراحیاں بناتے تھے‘ یہ مارخور اور یاک کے سینگھوں کے پیمانے‘ کپ اور پیالے بھی تیار کرتے تھے‘ یہ چیزیں بھی وہاں رکھی ہیں‘ قلعہ انسانی صناعی کا زندہ ثبوت ہے‘ یہ انتہائی بلند چٹانوں پر پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنایا گیا‘ قلعے کے ایک طرف وادی ہے‘ یہ وادی قلعے کی چھت سے شاہراہ ریشم تک صاف دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری طرف گلیشیئر اور پہاڑ ہیں چنانچہ یہ قلعہ دونوں طرف سے محفوظ تھا‘ قلعے کے گرد اونچی نیچی گلیوں میں بلتت کا گاﺅں آباد ہے‘ آغان خان فاﺅنڈیشن نے گلیوں‘ گاﺅں اور قلعہ تینوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے‘ تزئین و آرائش کی اور سیاحوں کےلئے ان میں کشش پیدا کر دی‘ گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی ہیں‘ دکاندار ان دکانوں میں تازہ پھل‘ خشک میوہ جات اور ہنزہ کی جڑی بوٹیاں فروخت کرتے ہیں‘ گھر پرانے اور روایتی ہیں‘ گلیشیئر کا پانی چھوٹی بڑی نالیوں کے ذریعے تمام محلوں اور گھروں سے گزرتا ہے‘ لوگ یہ پانی پیتے بھی ہیں اور اس سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں‘ صحنوں میں انجیر‘ خوبانی‘ آلو بخارے اور چیری کے درخت ہیں‘ چھتوں سے انگور کی بیلیں لٹک رہی ہیں‘ یہ لوگ کھیتوں میں آلو کاشت کرتے ہیں‘ ہنزہ کا آلو ہمارے پنجاب کے آلوﺅں سے مختلف ہے‘ گاﺅں میں ہنزہ کے روایتی کھانوں کے چند ریستوران بھی ہیں‘ آپ ان ریستورانوں میں یاک کی پنیر سے بنے کھانے کھا سکتے ہیں‘ بلتت کے لوگ بہت اچھے‘ ہنس مکھ اور مہربان ہیں‘ یہ اپنی دل آویز مسکراہٹ سے آپ کا دل موہ لیتے ہیں۔
خنجراب میری اگلی منزل تھا‘ یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ بارڈر ہے‘ یہ اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے‘ چاروں طرف برف پوش پہاڑ ہیں‘ پہاڑوں کے درمیان بے شمار چشمے ہیں‘ یہ چشمے جمع ہو کر دریا بنتے ہیں اور یہ دریا گلگت کی طرف سفر شروع کردیتا ہے‘ یہ درہ ہزاروں سال سے برصغیر پاک وہند اور چین کے درمیان زمینی رابطہ ہے‘ یہ چھ ماہ برف میں دفن رہتا ہے‘ یہ شدید برفباری کی وجہ سے تین ماہ آمد و رفت کےلئے بند کر دیا جاتا ہے‘ چین نے کاشغر سے گلگت تک خوبصورت سڑک بنا کر دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑ دیا یوں ماضی کا مشکل سفر حال میں آسان ہو گیا‘
میں اتوار کی صبح خنجراب روانہ ہوا‘ ہنزہ سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر عطاءآباد جھیل تھی‘ یہ قدرتی جھیل جنوری 2010ءمیں پورا پہاڑ دریا میں گرنے سے معرض وجود میں آئی‘ پہاڑ پر عطاءآباد کا اندھیرا گاﺅں تھا‘ گاﺅں میں صرف دو گھنٹے کےلئے سورج کی روشنی پڑتی تھی‘ روشنی کی کمی کی وجہ سے گاﺅں کی آبادی بہت کم تھی‘ یہ گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ گیا لیکن یہ جاتے جاتے جھیل کو عطاءآباد کا نام دے گیا‘ دریا اور گلیشیئروں کے گدلے پانی عطاءآباد پہنچ کر صاف ہو جاتے ہیں‘ آپ جوں ہی عطاءآباد پہنچتے ہیں‘ جھیل کا سبز پانی آپ کے قدم روک لیتا ہے اور آپ بے اختیار جھیل کے کنارے رک جاتے ہیں‘ یہ پانی پانی نہیں شیشہ ہے اور اس شیشے میں پہاڑوں کا عکس پورے منظر کو میلوں تک پھیلی پینٹنگ بنا دیتا ہے‘ حکومت نے چین کی مدد سے جھیل کے ساتھ ساتھ پانچ ٹنلز بنائیں‘ سڑک ان ٹنلز کے اندر سے گزرتی ہے‘ یہ ٹنلزسات کلو میٹر لمبی ہیں اور یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا تجربہ ہیں‘ یہ تجربہ کامیاب رہا‘ حکومت کو یہ تجربات مستقبل میں بھی جاری رکھنے چاہئیں‘ ٹنل ٹیکنالوجی پوری دنیا میں عام ہو چکی ہے‘ ناروے نے دنیا کی پہلی تیرتی ہوئی زیر آب سرنگ بنانے کااعلان کیا ہے‘ اس سرنگ کا حجم 4 ہزار فٹ گہرا اور 3ہزار فٹ چوڑا ہو گا‘ اس سرنگ کی تعمیر سے سفر 21 گھنٹے سے کم ہو کر 11 گھنٹے رہ جائے گا‘ ہم بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ پورے ملک کو آپس میں جوڑ سکتے ہیں‘ ہم چوبیس گھنٹوں کے سفر کو آٹھ دس گھنٹوں تک لا سکتے ہیں۔
سست بارڈر پاکستان کا آخری ٹاﺅن ہے یہاں امیگریشن اور کسٹم کے دفاتر ہیں‘ یہ ہنزہ سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے جبکہ خنجراب کےلئے سست سے مزید دو گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے‘ یوں یہ سفر چار گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے‘ سست غریبانہ‘ کم آباد اور گندہ سا گاﺅں ہے‘ حکومت کو اس گاﺅں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ چین کی طرف سے آنے والے مسافروں کےلئے پاکستان کا پہلا تعارف ہے اور ہمیں کم از کم اپنا تعارف ضرور ٹھیک کر لینا چاہیے‘ پاکستان کا آخری واش روم بھی ”سست“ میں ہے‘ یہ سہولت اس کے بعد کسی جگہ موجود نہیں حتیٰ کہ میں نے خنجراب میں سینکڑوں لوگوں‘ خواتین اور بچوں کو خوار ہوتے دیکھا‘ یہ غفلت غیر انسانی ہے‘ حکومت کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے‘ سست سے چڑھائی میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ سڑک بل کھاتی جاتی ہے‘ اوپر چڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ اس درے میں پہنچ جاتی ہے جو ہزاروں سال طالع آزماﺅں‘ سیاحوں اور تاجروں کی توجہ کا مرکز رہا‘ یہ درہ شاہراہ ریشم کی گزر گاہ تھا‘ چین کے پاس ریشم بنانے کا فن تھا‘ چینیوں نے یہ فن دنیا سے ہزاروں سال خفیہ رکھا‘ یہ خفیہ طریقے سے ریشم کے کیڑے پالتے تھے‘ انہیں شہتوت کے پتوں میں ککون بنانے کا موقع دیتے تھے اور آخر میں ککون سے ریشم کادھاگہ نکال کر اس کا کپڑا بُن لیتے تھے‘ یہ کپڑا درہ خنجراب پار کر کے دنیا تک پہنچتا تھا‘ یہ عمل اس وقت تک خفیہ رہا جب تک یورپ کے دو پادری اپنی دستی چھڑیوں میں ریشم کے چند کیڑے چھپا کر چین سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو گئے‘ یہ کیڑے جوں ہی چین سے نکلے دنیا پر ریشم کا راز افشاں ہوگیا‘ ریشمی کپڑا ہزاروں سال اس درے کے ذریعے دنیا تک پہنچتا رہا‘ ریشم کا راز بھی یہیں سے باہر نکلا‘ درہ خنجراب قدرت کا خوبصورت معجزہ ہے‘ آپ جوں ہی درے میں داخل ہوتے ہیں آپ کو چاروں اطراف برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں‘ پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع وادی ہے‘ وادی میں درجنوں چشمے بہہ رہے ہیں‘ یہ چشمے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشیئرز سے نکلتے ہیں‘ وادی کو سڑک دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے‘
خنجراب کے شروع میں پاکستان کی سیکورٹی پوسٹ ہے‘ پوسٹ کے ساتھ چین اور پاکستان کے جھنڈے لگے ہیں‘ پاکستانی پوسٹ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر چین کی پوسٹ ہے‘ یہ دونوں پوسٹیں دونوں ملکوں کی نفسیات‘ معیشت اور اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں‘ پاکستانی پوسٹ غریبانہ‘ شرمیلی اور پریشان حال ہے جبکہ چین کی پوسٹ انتہائی خوبصورت‘ بااعتماد اور باوقار ہے‘ چینی پوسٹ کے سامنے ہمارا صرف ایک سپاہی کھڑا تھا جبکہ چین کی طرف 8 آفیسرز لائن میں کھڑے تھے‘ ہماری سائیڈ پر ایک باریک سی رسی سرحد کی نشاندہی کر رہی تھی جبکہ چین نے اپنی سائیڈ پر سیاہ رنگ کی خوبصورت پٹی لگا رکھی ہے‘ آپ یہ پٹی عموماً ائیر پورٹس پر دیکھتے ہیں‘ خنجراب میں کوئی ریسٹورنٹ‘ بیٹھنے کی کوئی جگہ اور کوئی واش روم نہیں‘ لوگ ایمرجنسی میں پوسٹ کی پچھلی سائیڈ استعمال کرتے ہیں‘ پوسٹ کے پیچھے گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں‘ یہ ڈھیر ہماری نفسیات‘ ہماری حکومتی کارکردگی اور ہماری ترجیحات کے غماز ہیں‘ کاش ہمارے وزیراعظم خنجراب کا ایک چکر لگا لیں‘ یہ پاکستانی وقار کو وادی میں
بکھرا ہوا دیکھ لیں‘ قومیں نعروں اور دعوﺅں سے بڑی نہیں ہوا کرتیں‘ کام بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ہم ٹینک بھی باتوں سے چلانے کے ماہر ہیں۔