اسلام آباد (این این آئی) افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں،حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے مذاکرات کی ناکامی کا الزام افغان حکومت پر عائد کیاہے ۔ایک بیان میں حکمت یار نے کہا کہ حکومت نے حزب اسلامی سے افغان حکومت اور امریکہ کے متنازعہ معاہدے کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے تحت غیر ملکی افواج کو زیادہ عرصے تک افغانستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایک امن مسودہ پر اتفاق ہونے کے بعد افغان حکومت نے تقریبا بیس نئی ترامیم تجویز کی تھیں ، حکمت یار نے مغربی میڈیا کی ان رپورٹس کو جھوٹ قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ حزب اسلامی مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ دار ہے، انہوں نے کہا کہ اپریل میں حکومت کی دعوت پر حزب اسلامی نے مذاکرات میں حصہ لیا اور اس عمل کو کامیاب بنانے کیلئے اپنے بہت سے مطالبات میں نرمی کا مظاہرہ کیا، حزب اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ ان کے مذاکرات کاروں نے مذا کرات کی کامیابی کیلئے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے فی الفور اخراج کا اپنا دیرینہ مطالبہ بھی نہیں دہرایا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے حزب اسلامی سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی وساطت سے قائم افغان حکومت کی حمایت اور دفاع کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن ہمارے لوگوں نے اس مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات حزب اسلامی اور ریاست کے درمیان ہیں نہ کہ حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان ، حکمت یار نے کہا کہ حزب اسلامی نے افغان حکومت کو اختلافی مسائل کے حل کیلئے ان پر اور صدر اشرف غنی پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے جانے کا کہا جو مشورے سے متنازع امور پر فیصلے کرسکے لیکن حکومت نے اس سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اسلامی نے مذاکرات کے دوران کسی وزارت یا دیگر مراعات کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ حکمت یار نے کہا کہ حکومت نے مذاکرات کے دوران حزب اسلامی کے چند مطالبات تسلیم کئے تھے جس میں حزب اسلامی کے رہنماؤں کا اقوام متحدہ اور امریکہ پابندیوں کی فہرست سے نام نکالنا تھا اس کے علاوہ حکومت نے حزب اسلامی کیساتھ پاکستان میں مہاجرین کو واپس لانے پر اتفاق کیا تھا، حکمت یار نے کہا کہ امن مذاکرات حکومت کی درخواست پر شروع ہوئے تھے اور حکومت کی خواہش پر روک لئے گئے ہیں، اگر افغان حکومت دوبارہ مذاکرات چاہتی ہے تو حزب اسلامی اس کیلئے تیار ہوگی۔