واشنگٹن۔14فروی 2014۔امریکی کانگریس کے اراکین نے اوباما انتظامیہ سے پاکستانی حکومت کے ساتھ نئے اور مختلف طرزسے نمٹنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نیا طریقہ ایسا ہونا چاہیے جو یہ واضح کرے کہ امریکہ اورپاکستان حقیقی معنوں میں اس وقت تک سٹریٹیجک شراکت دار نہیں بن سکتے جب تک کہ پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات کوختم اورا ن کو ریاستی پالیسی کے آلہ کار کے طورپراستعمال کرنے کی مذمت نہیں کرتا ۔ان خیالات کا اظہار ایوان نمائندگان کی خارجہ امورکمیٹی کے چیئرمین ری پبلکن رکن Ed Royce اورکمیٹی کے سینئر ری پبلکن رکن Eliot Engel نے سیکرٹری خارجہ جان کیری کو لکھے گئے خط میں کیا ہے۔دفترِ خارجہ کی ترجمان نے بتایا کہ انھوں نے فی الحال یہ خط نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی وہ یہ تصدیق کر سکتی ہیں کہ وزیرِ خارجہ جان کیری نے اسے دیکھا ہے ۔خط موصول ہونے پرکانگریس کے اس مطالبہ کا جواب دیا جائے گا۔اراکین کانگریس نے خط میں لکھا ہے کی ہم زوردے کرکہتے ہیں کہ آپ(جان کیری) پاکستان پر سفری پابندیاں لگائیں، مالی امداد کے کچھ حصوں کومعطل کردیں اور جن پاکستانی اہلکاروں کے دہشتگرد اداروں کے ساتھ تعلقات ہیں ان پربھی پابندیاں عائد کریں۔امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کی تباہ کن آگ کا شکار رہاہے اور 2013 میں 3,000 سے زیادہ پاکستانی شہری دہشت گردحملوں میں ہلاک ہوئے ۔ اگر پاکستان کو صحیح معنوں میں اپنے لوگوں کی زندگی بہتر بنانی ہے تو اس کے رہنماؤں کو پرانی پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔انھوں نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت نے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن ایسی کئی تنظیمیں جنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جیسے لشکرِ طیبہ، لشکرِجھنگوی اور جیشِ محمد، ان کے خلاف کچھ خاص کارروائی نہیں ہوئی ہے۔یہ پالیسی اس سوچ کے تابع نظرآتی ہے جس میں سمجھا جاتا ہے کہ کچھ دہشت گرد تنظیمیں بھارت اور افغانستان میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے کام آ سکتے ہیں۔ ہم پاکستان کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ حقانی نیٹ ورک پر جلد ہی پابندی لگا دے گا لیکن ہمیں شک ہے کہ اس سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ آخر لشکرِطیبہ اور جماعت الدعوہ جیسی تنظیموں پر تو پابندی لگی ہوئی ہے لیکن وہ آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ کچھ ہی دنوں پہلے 25 جنوری کو کراچی میں جماعت الدعوہ کی ریلی ہوئی جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ حکومت نے اس کی منظوری دے رکھی ہے۔