بدھ‬‮ ، 20 اگست‬‮ 2025 

افغانستان میں امن کے دعوے ہوا میں اُڑ گئے،تین برس میں وہ ہوگیا جو کسی نے سوچا تک نہ تھا،عالمی تنظیم کے خوفناک انکشافات

datetime 1  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن(این این آئی)ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افغانوں کی تعداد دگنی ہو کر 1.2 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بات انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے بتائی گئی۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایمنسٹی کی طرف سے متنبہ کیا گیا کہ بنیادی انسانی ضروریات کی عدم دستیابی کے باعث یہ لوگ بقاء کے خطرات سے دوچار ہیں۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے مطابق بے گھر ہونے والے افغانوں کی صورتحال حالیہ چند برسوں کے دوران خراب ہوئی ہے، جس کی وجہ عالمی امدادی اداروں کی توجہ اور امدادی رقوم کا دیگر بحران زدہ علاقوں کی طرف منتقل ہونا بتائی گئی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر چمپا پٹیل کے مطابق چونکہ دنیا کی توجہ افغانستان سے ہٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے، اس لیے ہمیں تنازعے سے متاثر ہونے والوں کی صورتحال کے نظر انداز کر دیے جانے کا خطرہ ہے۔ ان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے، تحفظ کی تلاش میں اپنے گھر بار چھوڑنے کے باوجود بھی افغانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے اپنے ہی ملک میں حالات بد تر ہو رہے ہیں اور وہ اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جس کے خاتمے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آ رہی۔تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد سے بغاوت مسلسل بڑھ رہی ہے اور 2001ء میں امریکی سربراہی میں بین الاقوامی فورسز کی طرف سے طالبان کو حکومت سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے اب وہ مضبوط ترین پوزیشن میں ہیں۔ طالبان کی طرف سے موسم بہار کے سالانہ حملوں کا آغاز گزشتہ ماہ کیا گیا تھا، جن کا مقصد مغربی دنیا کی حمایت یافتہ حکومت کو کابل سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرنا ہے۔ایمنسٹی کے مطابق بے گھر ہونے والے افغانوں کے پاس سر چھپانے کی مناسب جگہ، خوراک، پانی اور صحت سے متعلق سہولیات کے فقدان کے علاوہ انہیں بے روزگاری کا بھی سامنا ہے اور نہ ہی ان کے بچے تعلیم تک رسائی رکھتے ہیں۔افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں پناہ گزین ایک ایسی ہی افغان خاتون نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہاں تو ایک جانور بھی اس طرح کی جھونپڑی میں نہیں رہے گا، مگر ہمیں رہنا پڑ رہا ہے۔ اس خاتون کا مزید کہنا تھا، ’’میں اس جگہ رہنے کے بجائے جیل میں رہنے کو ترجیح دوں گی۔ کم از کم جیل میں مجھے خوراک اور چھت کی فکر تو نہیں ہو گی۔ایمنسٹی کے مطابق خوراک کی کمیابی کے باعث بعض لوگ دن میں محض ایک وقت کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اس گروپ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور افغان حکومت کو لازمی طور پر ان بے گھر ہونے والے افغان شہریوں کی ضروریات کو دیکھنا چاہیے، ’اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے‘۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…