اسلام آباد : سینیٹ انتخابات کے قریب آنے پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیادت کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کے حوالے سے فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ن لیگ کے متعدد رہنماﺅں کو لگتا ہے کہ انتخابی نشستوں کی تقسیم غیرمنصفانہ ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر ناکام امیدواروں نے اپنی جماعت کے ساتھیوں کی مہم چلانے سے انکار کردیا کردیا ہے جس سے پارٹی کے اندر یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں متوقع تعداد میں نشستیں جیتنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔ ن لیگی ذرائع نے بتایا کہ موجودہ منظرنامے میں خاص طور پر بلوچسان اور خیبرپخونخوا کے اندر پارٹی اس وقت خوش قسمت سمجھی جائے گی جب اس کے تمام نامزد امیدوار سینیٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیں۔ ن لیگ کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سلیکشن کے عمل کے دوران ” امتیازی سلوک” اور پارٹی کے متعدد اہم رہنماﺅں کو سائیڈ لائن کیے جانے سے ن لیگ کی صفوں کے اندر ناراضگی کا احساس پھیلا ہے۔ امیدواروں کے انتخاب کے لیے ہونے والے بورڈ اجلاسوں میں شریک ایک رہنماءنے ڈان کو بتایا ” سینیٹ کی ٹکٹ کے 172 امیدواروں میں سے پارلیمانی بورڈ نے پارٹی کے سامنے صرف 35 سے چالیس نام حتمی انتخاب کے لیے پیش کیے، مگر بورڈ کے بیشتر اراکین کو اس وقت جھٹکا لگا جب پارٹی قیادت نے ان افراد کو بھی ٹکٹ سے نواز دیا جو اس فہرست میں شامل ہی نہیں تھے”۔ پارٹی کے ایک رہنماءنے نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ مثال کے طور پر پنجاب کی جنرل نشست کے لیے ن لیگ کے امیدوار چوہدری تنویر نے ٹکٹ کے لیے درخواست ہی نہیں دی تھی مگر انہیں پھر بھی نواز دیا گیا۔ پارٹی کے اندر مخالفانہ ردعمل کی توقع رکھتے ہوئے ن لیگ کی قیادت پیپلزپارٹی سے مذاکرات میں مصروف ہے تاکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنے امیدواروں زیادہ مزاحمت کے بغیر منتخب کرواسکے۔ اگرچہ پنجاب اسمبلی میں صرف آٹھ اراکین کے باعث پیپلزپارٹی کے ندیم افضل چن کے لیے سینیٹ نشست پر کامیابی کا کوئی امکان نہیںتاہم مسلم لیگ ن کی قیادت چاہتی ہے کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنے امیدوار کو دستبردار کروالے تاکہ ناراض اراکین پانچ مارچ کو ندیم افضل چن کو ووٹ نہ دے سکیں۔ ن لیگی ذرائع نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے گزشتہ جمعے آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور وزیراعظم نے پیر کو کراچی میں پی پی پی کے شریک چیئرمین سے ون ٹو ون ملاقات کی۔ علاوہ ازیں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین نظرانداز کیے جانے پر ناخوش ہین اور پیپلزپارٹی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ آصف علی زرداری کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ سابق گورنر پنجاب اور پی پی پی رہنماءاحمد محبوب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ناراض اراکین سے رابطے کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ڈان کے رابطہ کرنے پر ندیم افضل چن نے پنجاب سے انتخابی نتائج میں ” سرپرائز” کی پیشگوئی کی، حالانکہ اس صوبے میں مسلم لیگ نواز کو واضح اکثریت حاصل ہے اور وہ تمام گیارہ نشستیں جیت سکتی ہے۔ کے پی میں مسلم لیگ نواز نے صوبائی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ اور اہم رہنماءانجنیئر امیر مقام کے مقابلے میں لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی کا انتخاب کیا۔ ن لیگ کے ایک سنیئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ یہ دونوں ناراض رہنماءاب دانستہ طور پر خود کو انتخابی مہم سے دور رکھے ہوئے ہیں ” جنرل ترمذی کو صابر شاہ اور امیر مقام کی حمایت کی ضرورت ہے اس کے بغیر وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے”۔ مسلم لیگ ن کے لیے اصل چیلنج بلوچستان میں اپنی متوقع تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہوگا جہاں سے توقع ہے کہ حکمران جماعت چھ سیٹیں جیت سکتی ہیں۔ ن لیگ کے ایک سنیئر رہنماءنے ڈان کو بتایا کہ پارٹی کے صوبائی صدر ثناءاللہ زہری اعلیٰ قیادت کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب پر خوش نہٰں خاص طور پر بی این پی عوامی کے سابق سینیٹر کلثوم پروین کو نامزد کیے جانے پر جنھوں نے ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی پرانی جماعت کو چھوڑ دیا۔ پارلیمانی بورڈ کے ایک اجلاس میں ثناءاللہ زہری نے خبردار کیا تھا کہ اگر ان کی سفارشات کے مطابق ٹکٹ تقسیم نہ کیے گئے تو وہ بلوچستان سے سامنے آنے والے سینیٹ انتخابات کے نتائج کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔