جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وحشت ناک نااہلی

datetime 3  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تاریخ تھی 19 اپریل 2016ءاور چک کا نام تھا 105۔ یہ گاﺅں لیہ شہر کے شمال میں 22 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ عمر حیات کے بیٹے محمد سجاد کے گھر شادی کے 10 سال بعد بیٹا پیدا ہوا‘ وہ بیٹے کی ولادت کی خوشی میں چک 111 گیا‘ طارق ہوٹل اینڈ سویٹ شاپ سے 5 کلو لڈو خریدے اور یہ لڈو رشتے داروں اور عزیزوں میں تقسیم کر دیئے‘ اہل خانہ نے لڈو کھانے کے چند منٹ بعد قے کرنا شروع کر دی‘ عمر حیات نے اسے معمولی بات سمجھا‘ گرم علاقوں میں قے اور اسہال عام بیماریاں ہوتی ہیں لیکن جب خواتین اور بچوں کی حالت خراب ہونے لگی تو اس نے ہمسایوں کو پکارا‘ لوگ اکٹھے ہوئے‘ الٹیاں کرتے لوگوں کو اٹھایا اور انہیں لیہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے گئے‘ یہ لوگ ابھی بمشکل وہاں پہنچے تھے کہ لڈو کھانے والے دوسرے لوگ بھی ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئے‘ ہسپتال انتظامیہ نے علاج شروع کیا تو پتہ چلا خادم اعلیٰ کی خدائی میں معدہ صاف کرنے والی مشینیں ہیں‘ ڈرپیں ہیں اور نہ ہی معدے کے ایکسپرٹ ڈاکٹر ہیں چنانچہ ہسپتال میں افراتفری مچ گئی‘ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ اپنے اپنے مریضوں کو موٹر سائیکلوں‘ ویگنوں‘ ٹریکٹروں اور ٹرکوں میں لاد کر ملتان‘ بھکر‘ کہروڑ پکا‘ فتح پور اور فیصل آباد چلے گئے‘ یہ لوگ ان ہسپتالوں میں پہنچے تو وہاں بھی لیہ جیسی صورتحال تھی‘ بدنصیب لوگ مرنا شروع ہو گئے‘ یہ صورتحال ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی‘ ملک بھر میں کہرام برپا ہوا‘ پنجاب حکومت نے نوٹس لیا‘ تخت لاہور کے ہرکارے دوڑے لیکن ہیلتھ کیئر ایک ایسا شعبہ ہے جسے آپ فوری طور پر ڈویلپ نہیں کر سکتے‘ ہسپتال کو بننے‘ آلات خریدنے‘ ڈاکٹروں کے بندوبست اور ادویات کی ترسیل کےلئے کم از کم دو سال درکار ہوتے ہیں چنانچہ ہرکاروں کے دوڑنے اور خادم اعلیٰ کے نوٹس کا کوئی فائدہ نہ ہوا‘ لوگ مرتے چلے گئے‘ آج شام تک چک 105 کے 32 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ‘ ہلاک ہونے والوں میں عمر حیات کے خاندان کے 12 افراد بھی شامل ہیں‘ ان افراد میں عمر حیات کے 8بیٹے‘ ایک بیٹی ‘دو پوتیاں اور ایک پوتا شامل ہیں یوں عمر حیات کا پورا خاندان قبروں میں جا سویا‘ اس کے گھر میں اب دو بیوہ بہوﺅں اور تین پوتے پوتیوں کے سوا کوئی نہیں بچا‘ پولیس نے مٹھائی بنانے والے دونوں بھائیوں اور ان کے 12 سالہ ملازم کو گرفتار کر لیا ہے‘ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری لاہور نے مٹھائی میں Chlorfinappyer زہر کی تصدیق کر دی ہے‘ یہ کیمیکل ہے اور یہ عموماًکیڑے مار ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔
یہ واقعہ جہاں افسوسناک ہے وہاں اس نے ایک ہی جھٹکے میں خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کی قلعی بھی کھول دی‘ یہ درست ہے‘ لیہ جیسے واقعات ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور دنیا کی کوئی حکومت ایکسیڈنٹ نہیں روک سکتی‘ کسی بستی پر پہاڑ گر جائے‘ دریا کسی شہر کو صفحہ ہستی سے مٹا دے‘ زلزلہ آئے‘ لاکھوں لوگوں کو زمین نگل جائے‘ آئل کا کوئی ٹینکر گرے‘ پھٹے اور پورے گاﺅں کو جلا کر راکھ کر دے یا پھر خوراک میں زہر مل جائے اور درجنوں لوگ مارے جائیں‘ دنیا کی کوئی حکومت یہ واقعات نہیں روک سکتی لیکن حکومت ان واقعات کے بعد کیا کرتی ہے‘ کیا اس کے پاس ریسکیو کے باقاعدہ انتظامات ہیں‘ کیا یہ مریضوں اور زخمیوں کو وقت پر ہسپتال پہنچاتی ہے اور کیا ہسپتالوں میں آلات‘ ڈاکٹر اور ادویات موجود ہیں؟ یہ سوال اور ان کے جواب حکومتی کارکردگی کا اصل ٹیسٹ ہوتے ہیں‘ حکومتیں اچھی ہیں یا بری‘یہ کارآمد ہیں یا نالائق اس کا فیصلہ حادثوں کے بعد کی صورتحال کرتی ہے اور ہمیں یہ ماننا ہو گا راجن پور میں چھوٹو گینگ اور لیہ میں لڈو گینگ نے میاں شہباز شریف کی 8 سالہ کارکردگی کا پول کھول دیا‘ یہ دونوں واقعات گواہ بن گئے میاں شہباز شریف کی گورننس سڑکوں‘ انڈر پاسز‘ میٹرو اور اورنج لائین ٹرین سے شروع ہوتی ہے اور یہیں پر آ کر ختم ہو جاتی ہے‘ میاں شہباز شریف نے 8 برسوں میں پنجاب پولیس پر اربوں روپے خرچ کئے لیکن یہ اربوں روپے 9 کلو میٹر لمبے جزیرے سے چھوٹو اور اس کے 12 ساتھیوں کو گرفتار نہ کر سکے‘ میاں شہباز شریف کے 8 اضلاع کی پولیس 21 دن کچا جمال کے سامنے کھڑی رہی لیکن یہ چھوٹو کو گولی مار سکی اور نہ ہی پکڑ سکی‘ چھوٹو نے الٹا پولیس کے 25 اہلکار یرغمال بنا لئے‘ چھوٹو کو گرفتار اور یرغمالی پولیس اہلکاروں کی رہائی ‘یہ نیک کام فوج کو کرنا پڑ گیا‘ فوج نے جب 20 اپریل کی شام چھوٹو کو گرفتار کیا تو دیہاتیوں نے باہر نکل کر جنرل راحیل شریف زندہ باد اور پاک فوج پائندہ باد کے نعرے لگائے‘ یہ نعرے پنجاب پولیس اور اس میاں شہباز شریف کےلئے لگنا چاہیے تھے جو مسلسل 8 برسوں سے پنجاب کے والی ہیں‘ میرا ذاتی خیال ہے چھوٹو نے جس وقت فوج کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے میاں شہباز شریف کو اسی وقت اپنی ناکامی تسلیم کر کے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا‘ میاں شہباز شریف کل جب لیہ پہنچے اور انہوں نے عمر حیات کے 8 بیٹوں کی مغفرت کےلئے ہاتھ اٹھائے تو انہیں اس وقت بھی اپنی ناکامی تسلیم کر کے اپنی گاڑی سے چیف منسٹر کا جھنڈا اتار دینا چاہیے تھا لیکن پنجاب کا خادم یہ جرا¿ت نہ کر سکا۔
اللہ کی پناہ آپ آٹھ برس سے بلا شرکتِ غیر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن آپ آٹھ برسوں میں پولیس کے اندر ایک بھی ایسی پلٹن یا یونٹ نہیں بنا سکے جو چھوٹو جیسے مجرموں کا مقابلہ کر سکے اور آپ پنجاب کے 36 اضلاع میںایسے ہسپتال بھی نہیں بنا سکے جن میں زہر خورنی کا علاج ہو سکے‘ جن میں تیس چالیس لوگوں کے معدے صاف کئے جا سکیں‘ آپ اضلاع‘ شہروں اور قصبوں کےلئے اچھی ایمبولینس سروسز کا بندوبست بھی نہیں کر سکے‘ صوبے کی حالت یہ ہے‘ ڈینگی10سال سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے لیکن حکومت آج تک سپرے کرنے والوں کو ٹرینڈ نہیں کرسکی‘ مجھے یقین ہے اس سال بھی جب سکولوں میں سپرے ہو گا تو طالب علم پچھلے سال کی طرح بے ہوش ہوں گے اور ہسپتالوں میں ان کے علاج کی سہولتیں نہیں ہوں گی‘ پنجاب پولیس خادم اعلیٰ کی آٹھ سالہ خدمات کے بعد بھی کرپٹ ہے‘ یہ آج بھی لوگوں کو پولیس مقابلے میں قتل کر رہی ہے‘ آپ کسی تھانے کے اہلکاروں کو باہر نکال کر دوڑ لگوا لیں یہ اگر بے ہوش نہ ہوں تو آپ میاں شہباز شریف کو سر کا خطاب دے دیجئے گا‘ آپ صرف لاہور کے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں چلے جائیں‘ آپ کو اگر کسی ایک سکول‘ کسی ایک کالج میں وہ ساری سہولتیں مل جائیں جو کالج اور سکول کےلئے ضروری ہوتی ہیں تو آپ میاں شہبا زشریف کو ”نائیٹ“ ڈکلیئر کر دیجئے گا‘ میاں شہباز شریف آف شور کمپنیوں کے ایشو پر بھتیجوں کی مدد کےلئے میدان میں آ گئے ہیں‘ یہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی کرپشن تک بھی پہنچ گئے ہیں لیکن یہ آج تک چھوٹو جیسے مجرموں کےلئے میدان میں اترے اور نہ ہی ان کی وہ ایڑھیاں لیہ پہنچیں جنہیں رگڑ رگڑ کر یہ وطن کی مٹی سے چشمے نکالنا چاہتے ہیں‘ کیوں؟ اس کا حساب کون دے گا؟ میاں برادران چودھری پرویز الٰہی کے دور کو برا کہتے ہیں‘ یہ ان کے دور کی ادھوری سڑکوں‘ پلوں‘ انڈر پاسز اور سرکلر روڈز کا رونا روتے ہیں‘یہ مونس الٰہی کی کرپشن کا واویلا بھی کرتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں چودھری پرویز الٰہی نے سڑکیں ادھوری چھوڑ دیں لیکن انہوں نے 1122 جیسی سروس اور ٹریفک وارڈن جیسے ادارے بنائے تھے مگر آپ نے پولیس سروس اور صحت کے میدانوں میں کیا کیا؟ مجھے یقین ہے آپ اپنی خدمات کا انبار لگا دیں گے‘ آپ پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کے اشتہاروں کا ڈھیر لگا دیں گے لیکن اس ڈھیر‘ اس انبار کو لیہ اور راجن پور جیسے واقعات کی دو دیا سلائیاں جلا کر راکھ بنانے کےلئے کافی ہیں اور باقی کسر ایل ڈی اے کے سابق ڈی جی احد چیمہ پوری کر دیں گے‘ یہ وہ شخص ہے جس نے خادم اعلیٰ کے دور میں ایک صاحبزادے اور ایک وفاقی وزیر کی دل کھول کر خدمت کی‘ اس خدمت نے اسے بھی ارب پتی بنا دیا اور صاحبزادے اور وفاقی وزیر کی خدمات بھی وسیع ہو گئیں‘ احد چیمہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ اس ادارے سے ڈرتا ہے جس نے کرپشن کے الزام میں اپنے تھری سٹار ساتھیوں کو بھی نہیں چھوڑا‘ یہ شخص جس دن گرفتار ہو گیا اس دن خدمت کے باقی راز بھی کھل جائیں گے۔
آپ پانامہ لیکس پر بے شک استعفے نہ دیں‘ آپ اس پر کمیشن بناتے چلے جائیں‘ ٹی او آرز پر ٹی او آرز تراشتے چلے جائیں‘ آپ کمیشنوں کی رپورٹس کا انتظار بھی کریں اور آپ جب چاہیں‘ جہاں چاہیں اور جتنا چاہیں مخالفین کی مٹی بھی پلید کرتے رہیں لیکن آپ لیہ کے سانحے اور کچا جمال میں اپنی نااہلی سے انکار نہیں کر سکتے‘ آپ کو یہ ماننا ہوگا‘ آپ پنجاب کو آٹھ برسوں میں اچھے ہسپتال دے سکے‘ اچھی پولیس اور نہ ہی اچھے سکول۔ آپ آٹھ برسوں میں پنجاب کےلئے مناسب ہوم منسٹر اور ماہر وزیر صحت بھی تلاش نہیں کر سکے‘ آپ صرف لاہور شہر! جی ہاں صرف ایک شہر کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے چنانچہ آپ خود فیصلہ کیجئے ان نااہلیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا حساب کون دے گا؟ آپ پانامہ لیکس کو دشمنوں کی سازش سمجھتے ہیں‘ آپ سمجھتے رہیں لیکن چھوٹو لیکس اور لیہ لیکس تو آپ کی اپنی نااہلی ہے‘ یہ تو کسی دوسرے کی سازش نہیں‘ آپ کو یہ ذمہ داری تو قبول کرنی چاہیے‘ آپ کو اپنی اس وحشت ناک نااہلی پر تو استعفیٰ دینا چاہیے۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…