پشاور(نیوزڈیسک) ڈی جی آئی جی مالا کنڈ آزاد خان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے سر دار سورن سنگھ کے قتل کادعویٰ بے بنیاد ہے ٗ سورن سنگھ کا قتل سیاسی چپقلش کا شاخسانہ ہے ٗ پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ کونسلر بلدیو کمار الیکشن لڑنا چاہتے تھے ٗ ٹکٹ نہ ملنے پر وزیر اعلیٰ کے مشیر کو قتل کروا دیا ٗ مسلم لیگ (ن)کے نائب تحصیل ناظم عالم خان سہولت کار نکلے ۔ ڈی جی آئی جی مالا کنڈ آزاد خان نے چھ ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کالعدم پاکستان تحریک طالبان کی جانب سے سردار سورن سنگھ کے قتل کا دعویٰ بے بنیاد ہے ٗ ابتدائی تفتیش کے دوران گرفتار ملزمان نے قتل کا اعتراف کرلیا ہے جنہیں اجرتی قاتل کے ذریعے 10 لاکھ روپے دے کر قتل کیا گیا۔ڈی آئی جی مالاکنڈ نے کہاکہ سردار سورن سنگھ کا قتل سیاسی چپقلش کا شاخسانہ ہے، تحریک انصاف کے ڈسٹرکٹ کونسلربلدیو کمار الیکشن لڑنا چاہتے تھے اور ٹکٹ نہ ملنے کے تنازع پر انہوں نے سورن سنگھ کو قتل کروایا جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کے نائب تحصیل ناظم عالم خان نے سہولت کار کا کردارادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ کونسل بلدیو کمارنے اپنے قریبی دوست عالم خان کی معاونت سے سردار سنگھ کے قتل کا منصوبہ بنایا جس کیلئے عالم خان نے اجرتی قاتل سعید جان کا اہتمام کیا جسے قتل کرنے کیلئے بلدیو کمار نے 7 لاکھ روپے کی ادائیگی کی ٗ قتل کے مزید 3 سہولت کارمختار،اکبرعلی اور بیروز خان کو ایک ایک لاکھ روپے دینا تھے۔ڈی آئی جی مالاکنڈ کے مطابق سورن سنگھ کے قتل کا مقدمہ ان کے بیٹے کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سورن سنگھ بونیر میں اپنے ساتھ سیکیورٹی نہیں رکھتے تھے جنہیں اپنے ساتھ 2 پولیس اہلکار رکھنے کا کئی بار کہا جاتا رہا تاہم وہ اس پولیس کے 2 اہلکار اپنے ساتھ رکھنے کا کہا ٹی ٹی پی کا ذمہ داری لینے کا دعویٰ غلط ہے۔ ڈی آئی جی مالاکنڈ نے کہا کہ سورن سنگھ پر 22 اپریل کی شام 7 بجے فائرنگ کی گئی اور انہیں پیر بابا مزار پر گھر کے قریب نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ سورن سنگھ قتل کیس میں 6 ملزمان کو گرفتار کرلیا جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف جرم کرلیا۔انہوں نے سورن سنگھ کے قتل کا معاملہ انسداد دہشت گردی عدالت لے جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ سورن سنگھ اقلیتی رکن اسمبلی تھے اس لیے ان کے قتل سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد میں خوف پھیلا، اس لیے ان کے قتل کے کیس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔