جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جواب در جواب

datetime 21  اپریل‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آپ صرف ایک مثال لے لیجئے‘ میاں نواز شریف نے1997ءمیں احتساب بیورو بنائی‘ وزیراعظم کے دوست سینیٹر سیف الرحمن کو اس کا چیئرمین بنا دیا گیا‘ سیف الرحمن نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنائے اور لندن اور جنیوا میں تحقیقات شروع کرا دیں‘ یہ تحقیقات غیر ملکی کمپنیاں کر رہی تھیں اور ان کمپنیوں کو فیسیں چاہیے تھیں‘ حکومت غیر ملکی کمپنیوں کو براہ راست ہائر نہیں کر سکتی تھی چنانچہ وزیراعظم کی ہدایت پر وزارت خزانہ نے آئی بی کو تیس کروڑ روپے ریلیز کر دیئے‘ آئی بی نے یہ رقم سیکرٹ فنڈ میں ڈال دی‘ سیکرٹ فنڈ سے یہ رقم سیف الرحمن کے پاس چلی گئی اور سیف الرحمن نے یہ تیس کروڑ روپے چار کمپنیوں کرول ایسوسی ایٹ لندن‘ پیتھن سوہفریلی پیٹر اینڈ ایسوسی ایٹس جنیوا اور میسن لندن اور این گیسٹر برطانیہ میں تقسیم کر دیئے‘ یہ کمپنیاں 1999ءتک بے نظیر بھٹو کے خلاف تحقیقات کرتی رہیں‘ میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی لیکن تحقیقات مکمل نہ ہوئیں‘ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے‘ انہوں نے ”نیب“ بنایا اور سیف الرحمن کے بنائے مقدمات نیب کے حوالے کر دیئے‘ نیب نے ان مقدمات پر مزید 40 کروڑ روپے خرچ کئے‘ 25 کروڑ روپے سوئٹزر لینڈ کے وکلاءاور لاءفرمز کو دے دیئے گئے‘ 10 کروڑ روپے پاکستانی وکیلوں نے وصول کئے اور پانچ کروڑ روپے بیرون ملک سفر‘ ہوٹلوں اور رینٹ اے کار پر خرچ ہو گئے‘ یہ کل 70 کروڑ روپے بنتے ہیں اور یہ صرف دو اخراجات ہیں‘ آپ اگر گہرائی میں جا کر تحقیق کریں گے تو ایسی کئی رقمیں نکل آئیں گی اور یوں کل اخراجات دو اڑھائی ارب روپے تک پہنچ جائیں گے‘ دس سال کی اس مسلسل کوشش کا کیا نتیجہ نکلا؟ ملک کے لوٹے ہوئے چھ ارب روپے واپس لانا تو دور آپ نے اس پر مزید دو اڑھائی ارب روپے خرچ کر دیئے‘ آپ نے قوم کے دس سال بھی برباد کر دیئے‘ آپ نے احتساب بیورو اور نیب کی شکل میں دو نئے ادارے بھی بنا دیئے اور ان اداروں پر بھی اربوں روپے خرچ ہو گئے اور آخر میں نتیجہ کیا نکلا؟ این آر او اور اس این آر او کا کیا فائد ہوا؟ جنرل پرویز مشرف کی صدارت کو چھ ماہ کی ”ایکسٹینشن مل گئی اور بس۔
ہم اس بار بھی ”فرانزک آڈٹ“ کے نام پر وہی غلطی دوہرا رہے ہیں‘ عمران خان اپنی ناتجربہ کاری کے ہاتھوں ایک بار پھر بے وقوف بن گئے ہیں‘ یہ جلدی میں یہ نہیں دیکھ سکے‘ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن اور کسی بین الاقوامی فرم سے ”فرانزک آڈٹ“ پاکستان پیپلز پارٹی کی تجویز نہیں بلکہ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کا فارمولہ ہے‘ یہ ایک مقامی ”لیک“ ہے اور یہ حکومت نے پیپلز پارٹی کے ذریعے ”پبلک“ کرائی اور عمران خان ان کے ٹریپ میں آ گئے‘کیسے؟ ایسے کہ حکومت جانتی تھی وائیٹ کالر کرائم کی تفتیش سپریم کورٹ کے بس کی بات نہیں‘ ہمارے جج مقدمے سنیں گے یا پھر ”پانامہ لیکس“ جیسے عالمی ایشو پر تحقیقات کریں گے‘ حکومت یہ بھی جانتی تھی ہم جب سپریم کورٹ کو خط لکھیں گے تو چیف جسٹس کی طرف سے معذرت آ جائے گی اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا اور اگر ایسا نہیں ہوتا‘ عدالت معذرت نہیں کرتی اور یہ تین ججوں کا کمیشن بنا دیتی ہے توبھی حکومت سیف رہے گی‘ کیسے؟ یہ ایسے کہ کمیشن تفتیش کےلئے ایف بی آر‘ ایف آئی اے اور فنانشل ایکسپرٹس کا محتاج ہو گا اور یہ ادارے حکومت کے ماتحت ہیں‘ یہ ادارے پانامہ‘ ورجن آئی لینڈ‘ لندن اور سعودی عرب بھی نہیں جا سکیں گے‘ شریف فیملی نے 1992-93ءمیں جن بینکوں کے ذریعے رقم ملک سے باہر بھجوائی تھی‘ وہ بینک بند ہو چکے ہیں‘سرکاری ادارے وہ ریکارڈ بھی نہیں حاصل کر سکیں گے اور اگر ریکارڈ مل بھی گیا تو اس کی بنیاد پر مقدمہ نہیں بن سکے گا‘ کیوں؟ کیونکہ پچھلے 25 برسوں میں ملک کے ٹیکس قوانین تبدیل ہو چکے ہیں‘ ماضی کا سی بی آر اب ایف بی آر بن چکا ہے‘ اس دوران ٹیکس ”امیونٹی“ کی درجنوں سکیمیں بھی آئیں‘ بھٹو اور شریف فیملی کاروباری لوگ ہیں‘ انہوں نے ان سکیموں کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ہو گا چنانچہ یہ قانونی گرفت سے صاف بچ جائیں گے۔ پیچھے رہ گیافرانزک آڈٹ!یہ نومن تیل ہے‘ آپ کو دنیا میں کہاں ایسی آڈٹ فرمیں ملیں گی جو بیک وقت پانچ ملکوں میں آڈٹ کر سکیں‘ برٹش ورجن آئی لینڈ‘ پانامہ‘ برطانیہ‘ سعودی عرب اور پاکستان پانچ مختلف ممالک ہیں اور ان پانچوں کے قوانین مختلف ہیں مثلاً پانامہ اور ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنیاں قانونی ہیں‘ برطانیہ میں سرمایہ کار سرمایہ کاری کےلئے بیرون ملک سے سرمایہ بھی لا سکتا ہے اور یہ اسے خفیہ بھی رکھ سکتا ہے اور سعودی عرب ایک بند شاہی ملک ہے‘ آپ وہاں سے کسی قیمت پر انفارمیشن نہیں لے سکتے چنانچہ پھر یہ فرانزک آڈٹ فرم کیا کرے گی؟ ہم اگر ایک لمحے کےلئے یہ مان بھی لیں کہ یہ فرم 1992ءاور 2006ءکے مردے اکھاڑ لائے گی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے‘ آپ اس فرم کو ”ہائر“ کیسے کریں گے‘ حکومت کسی بھی غیر ملکی فرم کو ہائر کرنے کےلئے ”پیپرا رولز“ کی پابند ہے چنانچہ حکومت بیرون ملک کروڑوں روپے کے اشتہار دے گی‘ بڑی فرموں کی فیس اربوں روپے ہوتی ہے‘ ہم یہ فیس افورڈ نہیں کر سکیں گے‘ ہم چھوٹی کمپنیوں کی طرف جائیں گے‘ یہ بھی دس بیس کروڑ روپے چارج کر لیں گی‘ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں‘ حکومت یہ فرم ہائر کر لیتی ہے لیکن اس ہائرنگ پر کتنا وقت خرچ ہو گا؟ اور کیا ہائرنگ کے بعد گورے اس خطرناک ملک میں رہ سکیں گے‘ کیا ہم نے یہ سوچا؟چلئے ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں یہ گورے پاکستان میں رہ لیں گے تو سوال پیدا ہوتا ہے یہ پروف کہاں سے لائیں گے؟ میاں نواز شریف کا ایک ملزم بیٹا لندن اور دوسرا ملزم بیٹا سعودی عرب میں رہتا ہے‘ کمپنیاں پانامہ اور ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہیں‘ فلیٹس لندن میں ہیں‘ سرمایہ 2006ءمیں سعودی عرب سے شفٹ کیا گیا اور پاکستان کے سسٹم میں آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں چنانچہ پھر اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ کیا ملک بھٹوز کی طرح شریف فیملی کی لوٹی ہوئی دولت تلاش کرتے کرتے مزید چالیس پچاس کروڑ روپے نہیں گنوا بیٹھے گا اور وقت اور توانائی کا ضیاع اس کے علاوہ ہوگا؟۔
بھٹو فیملی اورشریف فیملی تجربہ کار ہیں اور عمران خان ناتجربہ کار چنانچہ یہ فرانزک آڈٹ اور چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے پھندے میں پھنس گئے ہیں ‘ یہ دونوں تجربہ کار پارٹیوں کا مشترکہ منصوبہ تھا‘ شاہ محمود قریشی اس سے واقف تھے‘ یہ عمران خان کو سمجھاتے ہی رہ گئے لیکن عمران خان اس دلدل میں چھلانگ لگا چکے تھے‘ عمران خان اب یہ سازش سمجھ گئے ہیں مگر یہ سمجھ لڑائی کے بعد کا وہ مکا ہے جسے آپ اپنے منہ پر مار سکتے ہیں‘ حکومت اب کسی بھی وقت عمران خان کی خواہش کے مطابق کمیشن بنا دے گی اور اس کمیشن کے ایکٹو ہوتے اور فرانزک آڈٹ فرم کی ہائرنگ تک میاں نواز شریف کی مدت اقتدار پوری ہو جائے گی چنانچہ قوم کو کیا ملا؟ اس نے کیاپایا اور عمران خان کو کیا ملا اوریہ کیا پائیں گے؟۔
آپ مجھ سے لکھوا لیں ہمارے ملک میں بڑے مگر مچھ نہیں پکڑے جائیں گے‘ آپ کچھ بھی کر لیں‘ آپ خواہ مارشل لاءلگا لیں‘ آپ خواہ نیب سے تگڑا ادارہ بنا لیں اور آپ خواہ کتنے ہی مضبوط قوانین بنا لیں آپ ان لوگوں کو نہیں پکڑ سکیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دولت کمانے سے پہلے دنیا کے شاطر ترین ”فنانشل ایکسپرٹس“ کی مدد لیتے ہیں اور یہ فنانشل ایکسپرٹس ان کی دولت کو دنیا بھر میں گھما کر اتنی وائیٹ کر دیتے ہیں کہ یہ قانون سے محفوظ ہو جاتے ہیں اور آپ اگر جنرل پرویز مشرف کی طرح دس سال لگا کر ان کے گرد گھیرا تنگ بھی کر لیں تو بھی یہ آپ کے قابو نہیں آتے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ گھیرے میں آنے کے بعد پہلے میثاق جمہوریت کے ذریعے اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر جوڈیشری کی بحالی جیسی کوئی موومنٹ چلا لیتے ہیں اور یوں پکڑنے والے این آرا و پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کا جائزہ لیں اور ان سوالوں کا جواب تلاش کریں‘ اگر وہ تحریک نہ ہوتی تو کیا بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف پاکستان واپس آتے‘ کیا جنرل پرویز مشرف یونیفارم اتارتے‘ کیا این آر او ہوتا اور اس این آر او سے 8041 کرپٹ لوگ مستفید ہوتے‘ کیا جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف بنتے‘ کیا عمران خان اور ان کی پارٹی ڈویلپ ہوتی اور کیا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوتیں؟ آپ ان سوالوں کے جواب تلاش کریں‘ آپ کو ساری سکیم سمجھ آ جائے گی اور اگر کوئی کسر رہ جائے تو آپ وقت کی ٹیپ ”ری وائینڈ“ کر کے 2007ءکے ان چہروں کو دیکھ لیں جو اس وقت افتخار محمد چودھری کے دائیں بائیں یا مخالفت میں کھڑے تھے‘ وہ اس تحریک کے بعد کہاں کہاں گئے اور انہوں نے کیا کیا پایا؟ آپ مزید سمجھ جائیں گے چنانچہ ہمیں چاہیے ہم مزید سرمایہ‘ وقت اور توانائی ضائع نہ کریں‘ ہم کرپشن کے سانڈوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے دروازے مضبوط کریں‘ ہم ماضی کی راکھ کریدنے کی بجائے آج اور کل پر توجہ دیں‘ ملک بحران سے نکل آئے گا۔
ہم اب آتے ہیں‘ حل کی طرف‘ ہمیں جدید دنیا کی طرح کرپشن کے خلاف ایک 20 سالہ قومی پالیسی بنانی چاہیے‘ اس پالیسی میں فوج سمیت ملک کے تمام اداروں‘ سیاسی جماعتوں اور یونینز کو شامل کیا جائے‘ اس پالیسی کو مستقبل میں کوئی شخص‘ کوئی ادارہ اور کوئی طاقت تبدیل نہ کر سکے‘ آپ اس کے بعد ماضی کو ماضی مان لیں‘ آپ جون 2016ءسے پہلے کے تمام مقدمے‘ تمام الزامات ختم کر دیں‘ آپ ساری فائلیں بند کر دیں اور ملک کو صفر پر لے جائیں‘ آپ قوم کو اس کے بعد چھ ماہ دے دیں‘ قوم ان چھ ماہ میں دنیا بھر میں بکھرا سرمایہ واپس لے آئے‘ لوگوں کو اجازت دے دیں یہ ان چھ ماہ میں اپنی ساری بلیک منی وائیٹ کر لیں‘ یہ اپنے خفیہ اثاثے ڈکلیئر کر دیں‘ بے نامیاں سیدھی کر لیں‘ خفیہ اکاﺅنٹس ظاہر کر دیں‘ بوریوں میں بند کیش نکال کر بینکوں میں جمع کرا دیں اور اپنی جائیداد ٹاﺅن کمیٹیوں میں رجسٹر کرا لیں‘ حکومت ڈکلیئر ہونے والی اس رقم‘ ان اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے یوں پوری قوم کا سارا بلیک ماضی چھ ماہ میں وائیٹ ہو جائے گا‘ آپ اس کے بعد نیا سسٹم بنا دیں‘ آپ اعلان کر دیں ملک میںاس کے بعد کسی ادارے‘ کسی شخص کی کرپشن کو معاف نہیں کیا جائے گا مگر آپ اس اعلان کے ساتھ ملک کو ایک نیا اور مضبوط سسٹم بھی دیں‘ آپ کو اس سسٹم کےلئے چند بڑے اقدامات کرنا ہوںگے‘ آپ اگر یہ اقدامات کر لیتے ہیں تو ہمارے ملک کا ٹیڑھا قبلہ تین چار برسوں میں سیدھا ہو جائے گا۔
یہ اقدامات کیا ہیں اور کیا یہ اقدامات قابل عمل ہیں‘ یہ میں اگلے کالم میں آپ کے گوش گزار کروں گا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…