اسلام آباد(نیوزڈیسک)میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ذرا سی ہمت کر لیں‘ یہ نیرو کی داستان عبرت پڑھ لیں تو انہیں یہ راز جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ ملک سے باہر کیوں بیٹھے ہیں‘ یہ علاج کیلئے ملک سے باہر کیوں جاتے ہیں اور یہ اپنے بچے‘ اپنے اثاثے اور اپنی آمدنی باہر کیوں رکھتے ہیں؟ یہ لوگ یہ بھی جان لیں گے‘ یہ اپنا ملک ہونے کے باوجود بے وطن کیوں ہیں‘ آپ المیہ ملاحظہ کیجئے‘ آصف علی زرداری دسمبر2011ء میں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کے صدر تھے‘ ملک میں ان کی حکومت بھی تھی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی‘ جنرل واپس چلا گیا مگر ان کی تسلی نہ ہوئی‘ انہوں نے ٹیلی فون اٹھایا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا‘ جنرل اطمینان سے سنتا رہا‘ گفتگو ختم ہوئی تو صدر کی طبیعت خراب ہو گئی‘ یہ پیچھے گر گئے‘ دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کے پاس کوئی ایک ایسا ہسپتال‘ کوئی ایک ایسا ڈاکٹر نہیں تھا جو صدر کا علاج کر سکتا چنانچہ ملک ریاض نے دوبئی سے ائیر ایمبولینس منگوائی‘ صدر کو لوڈ کیا اور دوبئی میں امریکن ہاسپٹل میں داخل کرا دیا‘ یہ وہاں 9 دن زیر علاج رہے‘ یہ 16 جون 2015ء کو ’’ہمیں تنگ کیا گیا تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ کے اعلان کے بعد بھی بیمار ہو گئے تھے‘ یہ اس وقت بھی علیل ہیں اور ان کا علاج لندن‘ نیویارک اور دوبئی میں ہو رہا ہے‘ یہ ایک ایسی ’’خوفناک‘‘ بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے یہ اپنے گھر میں نہیں سوتے‘ یہ ہوٹل میں رہتے ہیں اور یہ احتیاطاً ہوٹل‘ کمرے اور بکنگ کے نام بھی بدلتے رہتے ہیں‘ الطاف حسین بھی علیل ہیں‘ یہ بھی لندن میں زیر علاج ہیں‘ پورا ملک مل کر ان کو بھی علاج کی سہولیات فراہم نہیں کر سکتا اور اب میاں نواز شریف کے بازو میں بھی درد ہو گیا اور یہ بھی علاج کیلئے لندن روانہ ہو گئے ہیں‘ چودھری شجاعت حسین برسوں سے چین‘ ہالینڈ اور جرمنی میں علاج کروا رہے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کیلئے بھی پاکستان میں طبی سہولیات ناکافی ہیں‘ ہمارے پارلیمنٹیرینز اور بیورو کریٹس بھی ہر سال علاج کیلئے بیرون ملک جاتے ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی طبی معائنے کیلئے ہر مہینے لندن جانا پڑتا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ‘ وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کو بھی ملک میں مطلوبہ میڈیکل سروسز نہیں ملتیں‘ کیوں؟۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے‘ کیا یہ ملک وہ ملک نہیں جس میں بھٹو پھانسی لگنے کے باوجود 37سال سے زندہ ہے‘ جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری دوبار برسر اقتدار رہے‘ جس میں آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی نے پانچ سال حکومت کے مزے لوٹے‘ جس میں چودھری صاحبان پانچ سال ’’آل اِن آل‘‘ رہے‘ جس میں جنرل پرویز مشرف نو سال حکومت کرتے رہے‘ جس میں میاں شہباز شریف اور سید قائم علی شاہ مسلسل آٹھ برس سے وزراء4 اعلیٰ ہیں اور جس میں میاں نواز شریف دوسری مرتبہ ہیوی مینڈیٹ لے کر تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں لیکن یہ تمام لوگ تیس تیس‘ پینتیس پینتیس برس کے اقتدار کے باوجود ملک میں کوئی ایک ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جس میں ان کا طبی معائنہ ہو سکے‘ جس میں ان کا آپریشن‘ ان کا علاج ہو سکے‘ یہ ملک میں کوئی ایک ایسا سکول‘ کالج اور یونیورسٹی بھی نہیں بنا سکے جس میں ان کے بچے پڑھ سکیں‘ یہ پورے ملک میں سرمایہ کاری کی کوئی ایسی ’’جنت‘‘ بھی تشکیل نہیں دے سکے جس میں یہ اور ان کے خاندان کا سرمایہ محفوظ ہو اور یہ پورے ملک میں کوئی ایک ایسی بستی بھی نہیں بنا سکے جس میں یہ سیکورٹی گارڈز‘ پولیس‘ رینجرز اور ایس ایس جی کے بغیر رات گزار سکیں‘ آپ کمال دیکھئے‘ ڈاکٹر عاصم حسین کی مہربانی سے ملک کے آدھے میڈیکل کالجز کے ساتھ ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہیں چنانچہ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علم تجربے کے بغیر لوگوں کا علاج کریں گے‘ ہمارے حکمران اس طبی معجزے سے واقف ہیں لہٰذا یہ لوگ پاکستان کے کسی ڈاکٹر کو اپنے اور اپنے خاندان کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے‘ یہ پاکستان کے کسی ہسپتال میں داخل ہونے کا رسک بھی نہیں لیتے جبکہ انہوں نے ملک کے بیس کروڑ عوام کو ان ڈاکٹروں کے حوالے کر رکھا ہے‘ کون ذمے دار ہے؟ کیا ان لوگوں کو اس مجرمانہ غفلت پر سزا نہیں ہونی چاہیے‘ کیا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟۔
نوازشریف اور آصف زرداری علاج کیلئے باہر کیوں جاتے ہیں؟ جنرل کیانی کیساتھ تلخ کلامی کے بعد کیا ہوا؟ جاوید چودھری کے انکشافات
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں