لاہور( این این آئی) صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنااللہ خان نے کہا ہے کہ انتہا پسندوں ،دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن کسی سیاسی جماعت کی ڈکٹیشن پر نہیں کیا جارہا ، ملک سے دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے ایک ایک نقطے پر عملدرآمد کیا جارہا ہے، گلشن اقبال پارک کے سانحہ کے بعد آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے اورہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں کچھ ثابت ہونے سے قبل ملزم یا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا ،علمائے کرام نے تحفظ نسواں قانون کی کسی شق کو قرآن و سنت کے منافی قرار نہیں دیا ،تجاویز پر غور کررہے ہیں اور ضرورت پڑی تو انہیں اسمبلی میں لایا جائے گا،دھرنے میں قانون کو ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کونقصان پہنچانے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا ۔پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوےء رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک فرقے کی جانب سے دھرنا دیا گیا ۔ حکومت نے تدبر اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کو طاقت کے استعمال کے بغیر ہی حل کیا جس پر اس میں کردار ادا کرنے والے تمام لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے اورسرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کسی صورت معافی نہیں ملے گی ۔رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن پہلے بھی جاری تھا لیکن سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعدآپریشن میں تیزی لائی گئی ہے ۔انتہا پسندوں ،دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن کسی سیاسی جماعت کی ڈکٹیشن پر نہیں کیا جارہا ۔ یہ پوری قوم کا آپریشن ہے جسکے تحت ملک سے دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد آپریشن میں ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا لیکن تحقیقات میں شناخت اور اپنا صاف کردار ثابت کرنے والوں کو رہا کر دیا گیا جبکہ چند سو افراد کو باقاعدہ گرفتار کر کے ان کی سکریننگ کی جارہی ہے ۔انہوں نے تحفظ نسواں قانون کے حوالے سے کہا کہ حکومت از خود اس کو واپس لینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی ۔علمائے کرام کی تجاویز پر غور کررہے ہیں، علمائے کرام نے قانون کی کسی شق کو قرآن پاک کے منافی قرار نہیں دیا ہے۔ اس حوالے سے جو بھی تجاویز آئیں گی انہیں ضرورت ہوئی تو ضرور ایوان میں پیش کیا جائے گا۔