لاہور(نیوز ڈیسک) پاکستان کرکٹ ٹیم ہمیشہ گروپ بندی کا شکار رہی جبکہ ہمیشہ کپتان کے خلاف بھی سازشیں ہوتی رہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق 1982 ءمیں پہلی بار عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تو جاوید میانداد اور سرفراز نے ان کی چھٹی کروا دی۔ جس کے بعد عمران خان نے بیک فائر مارا تو جاوید کو کپتانی سے اور سرفراز کو ٹیم سے فارغ کر دیا گیا۔1993 ءمیں جاوید میانداد کپتان بنے تو سلیم ملک، وسیم اکرم اور رمیز راجہ نے میانداد کی کٹیا ڈبو دی ۔وسیم کا گروپ مضبوط تھا اس لئے سلیم ملک صرف 34 اور رمیز راجہ 22 میچوں سے زیادہ کپتان نہ رہ سکے جبکہ وسیم اکرم 109 میچوں میں کپتان رہے۔1995 سے 2002 تک کھیل وسیم اکرم، معین خان (34) گروپ اور وقار یونس (62) راشد لطیف (25) گروپ میں جاری رہا۔ کبھی ایک برسر اقتدار آتا اور کبھی دوسرا اسی عرصے میں دونوں مشہور زمانہ ڈبلیوز نے ہر ممکن طریقے سے شعیب اختر کو نہ کھلانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ 2002 سے 2007 تک انضمام اور یونس خان کے خلاف بھرپور کوشیش کی گئیں جس میں محمد یوسف، شعیب ملک، کامران اکمل اور سلمان بٹ نے کافی کردار ادا کیا لیکن ایک تو انضمام ایک مضبوط کپتان کے طور پر ابھرے اور دوسرے ان کے مقابلے میں ٹیم میں محمد یوسف کے علاوہ کوئی سینئر کھلاڑی نہیں تھا جو سازش کو مضبوط کرتا اس لئے انضمام 87 میچ نکال گئے۔ لیکن بالآخر ایک ایسے وقت میں ریٹائر ہوئے جب آخری میچ کھیلنے کے لئے ان کو بورڈ کی منت سماجت کرنی پڑی تھی۔ یونس خان بھی ان سازشوں سے بچ نہ سکے اور صرف 21 میچ کھلا سکے۔ یونس ایک ایسے وقت میں کپتان بنائے گئے جب چیئرمین بورڈ بھی سازش میں مصروف تھے۔مصباح الحق کے خلاف بھی گروپ بندی کی گئی اورانکوون ڈے اورٹی ٹونٹی فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ پرمجبورکیاگیاوہ اب صرف ٹیسٹ ٹیم کے کپتان ہیں اوراب شاہدخان آفریدی کے خلاف بھی شازشیں جاری ہیں۔