پیر‬‮ ، 22 ستمبر‬‮ 2025 

کروڑوں کی سیلاب زدہ گاڑیاں لاکھوں میں دستیاب

datetime 5  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن (نیو زڈیسک) 2015 ء کی یہ جیگوار نیلامی میں صرف 17 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ایک وسیع و عریض میدان میں استعمال شدہ گاڑیوں کے درمیان کھڑے جمبو کمار مرسیڈیز بینز کار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔29 سالہ کمار کے والد ساری عمر سکوٹر چلاتے رہے اور گاڑیوں کے پرزوں کا چھوٹا سا کاروبار کرنے والے کمار نے خود سنہ 2009 میں کار خریدی تھی۔ وہ اپنے خاندان میں گاڑی کے مالک بننے والے پہلے شخص تھے۔کمار نے جب اپنے دوستوں سے سنا کہ گذشتہ سال بھارت کے جنوبی شہر چنّئی (مدراس) میں آنے والے سیلاب میں ڈوبنے اور خراب ہونے والی گاڑیوں کی نیلامی ہو رہی ہے تو وہ بھی یہاں پہنچ گئے۔اب کمار اْس مرسیڈیز کے تلاش میں ہیں جس کے انھوں نے ہمیشہ خواب دیکھے ہیں لیکن کبھی اتنے پیسے نہیں جمع کر پائے کہ اسے خرید سکیں۔ اب گاڑی کے خریداری کے لیے ان کا بجٹ 10 لاکھ روپے ہے۔کمار کہتے ہیں ’میری بیگم کہتی ہیں اگر تم نیلامی میں گئے تو مرسیڈیز لے کر ہی واپس آنا۔ اسی لیے میں اچھی قیمت میں پسند کی گاڑی کی تلاش میں ہوں۔ اگر میرے والد زندہ ہوتے تو آج وہ مجھ پر بہت فخر محسوس کرتے۔‘کمار کے اردگرد بولی لگانے والے دیگر لوگ، استعمال شدہ گاڑیوں کے ڈیلر، خریدار اور کرائے کی گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے افراد، اور ان سب کے گرد حّد نگاہ تک سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں۔دو ماہ قبل چنّئی میں آنے والے صدی کے بدترین سیلاب میں ان گاڑیوں میں بھی بارش اور گٹر کا پانی بھرگیا تھا۔زیادہ تر گاڑیوں پر اب بھی سیلابی ریلے کی مٹی کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہے، ان کے اندرونی حصے میں کائی لگی ہے اور وہ خراب ہو چکے ہیں لیکن گاڑیوں کا یہ ’قبرستان‘ بہت سی خواہشات اور خوابوں کا محور ہے۔زیادہ تر گاڑیوں پر اب بھی سیلابی ریلے کی مٹی کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہیچنّئی سے ایک ہزار کلومیٹر دور مغربی شہر پونے میں گاڑیوں کی مرمت کا کاروبار کرنے والے جیوتی رام چھوگلے بھی ایسے ہی خوابوں کے بیوپاری ہیں۔ان کے تین گاہکوں نے جب اس نیلامی کے بارے میں سنا تو انھوں نے چھوگلے کو چنّئی جانے والے جہاز میں سوار کرا دیا۔چھوگلے کہتے ہیں ’میں اپنے گاہکوں کے لیے لگڑری گاڑیاں ڈھونڈ رہا ہوں۔ میرے گاہک جیگوار، رینج روور، پورشے کی خریداری کے خواہشمند ہیں۔‘گاڑیوں کی خریدوفروخت کی ویب سائٹ cardekho (کار دیکھو) کے ابھیشک گوتم کے مطابق وہاں موجود گاڑیوں میں تقریباً 40 فیصد ایسی ہیں جنھیں بیمہ کمپنی والے مکمل خسارے کا بیمہ کہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ کمپنی کی ورکشاپوں پر ان گاڑیوں کی مرمت کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔‘بیمہ کمپنیوں کو گاڑیوں کے کلیموں کے ایک طوفان کا سامنا ہے اور اس لیے وہ مردہ گاڑیوں کو دوبارہ فروخت کیلیے بھیج دیتے ہیں۔گوتم بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی کو دوبارہ فروخت کے لیے 18 بیمہ کمپنیوں کی جانب سے گاڑیاں موصول ہوئی ہیں اور وہ سیلاب میں تباہ ہونے والی 15 سو سے زائد گاڑیوں کی فروخت کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



رونقوں کا ڈھیر


ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…