نیو یارک(این این آئی) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران کی فوج پاسداران انقلاب نے شام میں جنگ کےلئے ہزاروں افغان شہریوں کی تربیت کی ¾ کئی افغانیوں کو جبری طور پر فوج میں شامل کیا گیا تاکہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی فوج کے ہمراہ مخالفین سے جنگ کر سکیں۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جن افغان شہریوں کو جنگی تربیت دی گئی وہ مہاجرین تھے ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر پیٹر بوکیری نے کہا کہ ایران نے افغان مہاجرین سے نہ صرف شام کی جنگ میں شمولیت کے لیے مختلف مراعات کے وعدے کیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے والوں کو دوبارہ افغانستان بھیجنے کی دھمکی بھی دی گئی۔فرانسیسی میڈیا کے مطابق اس طرح کے مایوس کن انتخاب پر بہت سارے افغان نوجوانوں نے ایران سے یورپ بھاگ جانے میں عافیت جانی۔ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ ایران میں ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ افغان موجود ہیں، جو افغانستان میں جاری جنگ وجدل کے باعث ایران منتقل ہوئے جن میں سے صرف 9 لاکھ 50 ہزار افراد کو مہاجرین تسلیم کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ایران میں موجود کم از کم دو درجن افغانیوں کے انٹرویو کیے گئے جن میں اکثریت کو یا ان کے رشتے داروں کو ایران کی فوج نے عسکری تربیت دی جبکہ 6 افراد نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی فورسز نے ان کو یا ان کے رشتے داروں کو تہران اور شیراز میں موجود تربیتی کیمپوں میں عسکری ٹریننگ دی ¾ان 6 افراد میں سے 2 افراد رضا کار بنے جبکہ باقی 4 کو ‘زبردستی’ جنگ کے لیے بھیجا گیا۔ان افراد کا کہنا تھا کہ اس وقت افغان شہری دمشق، حلب، حمس، دیر الویز، حما، لتاکیا سمیت شام کے دیگر علاقوں میں لڑ رہے ہیں جبکہ بعض کو اسرائیل کے زیر انتظام گولان کے پہاری علاقے میں بھی بھیجا گیا ہے۔دریں اثناءانسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے انکشاف کیا ہے ایرانی فوج نے نومبر 2013 سے اب تک ملک میں موجود ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو کسی نامعلوم محاذ جنگ پر جھونکنے کے لئے بھرتی کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ان میں درجنوں افراد کو زبردستی بھرتی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ہیومن رائٹس کے صدر دفترنیویارک سے گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس نے 2015 کے اواخر میں ایران میں بسنے والے ان افغانیوں میں سے 20 کی شہادتیں جمع کیں۔ ان افراد نے انکشاف کیا کہ شامی حکومت کی مددگار ملیشیاو¿ں میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں مالی رقوم اور قانونی قیام کی پیش کش کی گئی۔ رپورٹ میں بعض افراد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انہیں یا ان کے عزیز و اقارب کوشام میں لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس پر وہ وہاں سے یونان فرار ہوگئے یا پھر انکار کی وجہ سے انہیں افغانستان بھیج دیا گیا۔ دیگر افراد مذہبی وجوہات کے سبب یا پھر ایران میں قیام کی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے، شام میں رضاکارانہ طور پر لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ہیومن رائٹس واچ کے ایک ذمہ دار پیٹر بوکائرٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ ایران اپنے یہاں موجود افغان مہاجرین کو شام میں لڑنے کے لیے صرف مراعات کی پیش کش نہیں کی بلکہ ان میں بہت سوں نے بتایا کہ انہیں دھمکی دی گئی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں افغانستان بھیج دیا جائے گا۔ اس خطرناک اختیار کو دیکھ کر ان میں سے بعض افغان یورپ فرار ہوگئے۔