بیروت(نیوز ڈیسک) شام کے اہم شہر دمشق میں شامی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں ملک کی انتہائی طاقت ور عسکری تنظیم کے سربراہ کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شامی طیاروں نے دمشق میں فضائی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں عسکری تنظیم جیش الاسلام کے سربراہ زھران علوش ہلاک ہوگئے۔جیش الاسلام دمشق کے شمالی علاقے غوطہ پر قابض عسکریت پسندوں کی اہم تنظیم تصور کی جاتی ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک شامی تنظیم کا کہنا ہے کہ زھران علوش اور تنظیم کے دیگر 5 کمانڈرز کو مشرقی غوطہ کے علاقے میں ایک اجلاس کے دوران نشانہ بنایا گیا.جیش الاسلام کے ایک سینیئر رکن نے علوش کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 3 طیاروں نے انھیں خفیہ اجلاس کے دوران نشانہ بنایا۔خیال رہے کہ شامی حکومت اور ریاستی میڈیا مسلسل کئی عرصے سے جیش الاسلام کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رہا ہے جبکہ سرکاری ٹی وی نے علوش کی ہلاکت کی اطلاع نیوز الرٹ کے طور پر دی۔شام کی سرکاری فوج کے کمانڈر نے سرکاری ٹی وی پر جاری بیان میں ایک ’خصوصی آپریشن‘ کے دوران زھران علوش کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ا±دھر شامی سکیورٹی فورسز نے تصدیق کی ہے کہ روس کی جانب سے فراہم کردہ نئے میزائلوں کی مدد سے شامی طیاروں نے مختلف حملوں میں درجنوں شامی باغیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ذرائع کے مطابق شامی طیاروں نے خفیہ اجلاس کے مقام پر دو بار فضائی کارروائی کی، جس دوران ہر بار 4 میزائل گرائے گئے۔ حملے میں جیش الاسلام کے 12 اراکین اور احرار الاسلام کے 7 اراکین ہلاک ہوئے.زھران علوش کون تھا؟شام کی اہم اپوزیشن عسکری تنظیم کے سربراہ زھران علوش 1971 میں شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئے جو مشرقی غوطہ کا ایک اہم قصبہ ہے، ان کے والد علاقے کے معروف مذہبی مبلغ تھے۔اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علوش نے اپنی دینی تعلیم شام اور سعودی عرب میں حاصل کی۔زھران علوش کو 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ایک عام معافی نامے کے تحت انھیں جون 2011 میں رہا کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب شامی صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت کے آغاز کو ابھی 3 ماہ کا عرصہ ہی ہوا تھا۔شام میں بشار الاسد کے خلاف بڑھتی ہوئی بغاوت کے باعث زھران علوش نے بھی شامی صدر کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا اور 2013 میں شام کے متعدد عسکری گروپوں کو جیش السلام کے جھنڈے تلے جمع کیا۔واضح رہے کہ زھران علوش کی تنظیم نے مشرقی غوطہ کے علاقے پر قبضہ کیا اور صدر بشار الاسد کے ساتھ ساتھ داعش کے اہم مخالف کے طور پر سامنے آئی۔یہ بھی یاد رہے کہ 2011 سے شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف ا±ٹھنے والی سیاسی بغاوت میں اب تک 250،000 افراد ہلاک اور لاکھوں شامی شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔