اسلام آباد (نیوز ڈیسک)ایک تحقیق کے مطابق ضعیف العمر افراد میں آن لائن گیمز کھیلنے سے یادداشت اور سمجھ بوجھ کی مہارت کی مشق ہوتی ہے اور یہ گیم ذہنی تربیت کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
کنگز کالج لندن میں کی جانے والی اس وسیع پیمانے پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق ذہنی مشقیں دماغ کو چاق و چوبند رکھتی ہیں اور لوگوں کے لیے روز مرہ کے کام کرنے میں، مثلاً خریداری اور کھانا پکانے، میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔بی بی سی ٹی وی کے پروگرام ’بینگ گوز دا تھیوری‘ کے تحت کیے جانے والے تجربے میں 50 سال یا اس سے زائد عمر کے تقریباً سات ہزار افراد نے حصہ لیا تھا۔
اسی موضوع پر اب طویل المعیاد تحقیقات کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔رضاکارانہ طور پر اس تجربے میں شامل ہونے والے افراد کو بی بی سی، ایلزہائمرز سوسائٹی، اور میڈیکل ریسرچ کونسل کے اشتراک سے عام افرادمیں سے منتخب کیا گیا تھا۔60 سال کی عمر سے زائد کے افراد میں روز مرّہ کے ضروری معمولات کی ادائیگی کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آئے محققین کی معلومات کی حد تک تجربے میں شمولیت کے وقت ان افراد میں سے کسی کو بھی کمزور یادداشت یا پھر چیزوں یا باتوں کو سمجھنے میں دشواری کی شکایت نہیں تھی۔تجربے میں شامل چند افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ آن لائن ذہنی مشقوں کی گیمز کھیلیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ ایک بار میں کم از کم دس منٹ تک گیمز کھیلیں، جب کہ زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ دوسری جانب کنٹرولڈ گروپ میں شامل افراد سے کہا گیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر معمول کی سرچنگ کریں۔سائنس دانوں نے تجربہ شروع ہونے سے قبل تحقیق میں شامل افراد کے طبی بنیادوں پرتسلیم شدہ انسانی سمجھ بوجھ پر مبنی ٹیسٹ کیے تھے جنھیں پہلے تین ماہ اور پھر چھ ماہ کے وقفے سے دہرایا گیا تھا۔ یہ ٹیسٹ کرنے کا مقصد دونوں گروہوں کے درمیان سامنے آنے والے ممکنہ فرق کا پتہ لگانا تھا۔چھ ماہ بعد محققین کو پتہ چلا کہ مشکلات کا حل نکالنے والے اور منطق و استدلال پر مبنی ’ذہنی مشقوں‘ پر مشتمل گیمز کھیلنے والے افراد ذہنی صلاحیتیں زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے کے قابل تھے، بہ نسبت ان افراد کے جنھوں نے گیمز نہیں کھیلے تھے۔ان گیمز کے فوائد سب سے زیادہ اس وقت نظر آئے جب یہ گیمز ہفتے میں کم از کم پانچ بار کھیلے گئے تھے۔سائنسی جریدے جرنل آف پوسٹ ایکِیوٹ اینڈ لونگ ٹرم کیئر میڈیسن کے مطابق گیمز کھیلنے والے 60 سال کی عمر سے زائد کے افراد میں روز مرّہ کے ضروری معمولات کی ادائیگی کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔تاہم انہی محققین کی جانب سے اس سے قبل کیے جانے والے ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 50 سال سے کم عمر کے افراد میں ذہنی تربیت اتنی فائدے مند نہیں ہے۔تجربے میں 50 سال یا اس سے زائد عمر کے تقریباً سات ہزار افراد نے حصہ لیا تھاکنگ کالج کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکائٹری، سائیکالوجی، اینڈ نیورو سائنسسز کے سائنس دان اس ہی موضوع پی طویل المعیاد تحقیق کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس تحقیق کے ذریعے جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا اس طریقے سے ڈیمینشیا جیسی بیماری کی روک تھام ممکن ہے یا نہیں۔ایلزہائمرز سوسائٹی کے ڈاکٹر ڈگ براو¿ن کہتے ہیں: ’آن لائن ذہنی تربیت (گیمز) بڑھ کر لاکھوں پاو¿نڈ صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس طرح کی تحقیقات یہ سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں کہ یہ گیمز کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔اگرچہ کہ اس تحقیق کا دورانیہ مختصر ہونے کے باعث یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ذہنی تربیت کے پروگرام انسان کی ادراکی صلاحیتوں کے زوال یا ڈیمینشیا کو روکنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات سے خوشی ہو رہی ہے کہ اس کے ضعیف افراد پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ افراد اپنے معمول کے کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔‘
آن لائن گیمز سے ضعیف العمر افراد کی یادداشت بہتر
4
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں