واشنگٹن(نیوز ڈیسک)امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے جنگی بحری جہاز جنوبی بحیرہ چین کے متنازع علاقوں سے دوبارہ گزریں گے اور اس قسم کے آپریشنز سے کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔گائیڈڈ میزائلوں سے لیس امریکی بحری بیڑا یو ایس ایس لیسن چینی دعوے کے مطابق گذشتہ ہفتے اس کے ملکیتی مصنوعی جزیرے کے قریب آیا تھا۔چین نے امریکی جہاز کی آمد کو ’اشتعال انگیز‘ اقدام قرار دیتے ہوئے امریکہ کو آئندہ ایسی کسی حرکت سے باز رہنے کو کہا گیا تھا۔تاہم منگل کو امریکی پیسیفک کمانڈ کے ایڈمرل ہیری ہیرس نے بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’ہم دنیا بھر کے پانیوں میں کئی دہائیوں سے نقل و حرکت کی آزادی کے تحت آپریشنز کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ کسی کے لیے بھی باعثِ حیرانی نہیں ہونے چاہییں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہماری فوج ہر اس علاقے پر فضا اور سمندر کے راستے جائے گی جہاں عالمی قانون کے تحت اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ جنوبی بحیر? چین کو اس سلسلے میں نہ استثنیٰ ہے اور نہ دیا جائے گا۔‘ایڈمرل ہیرس کا کہنا ہے کہ اس قسم کی نقل و حرکت کو ’کسی بھی قوم کے لیے دھمکی یا خطرہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔‘امریکی ایڈمرل نے یہ بیان ایسے موقعے پر دیا ہے جب قومی سلامتی کے امور کے لیے امریکی صدر کے نائب مشیر بین روڈز نے کہا تھا کہ جنوبی بحیر? چین میں نقل و حرکت کی آزادی کو یقینی بنانا امریکی مفاد میں ہے۔چین نے سنہ 2013 میں سپارٹلی میں سمندری چٹانوں کے ایک باہمی متصل سلسلے کو جزیرے کی شکل دی تھی۔چین کی جانب سے جزیروں کی تعداد بڑھانے پر امریکہ سمیت دیگر ممالک پریشان ہیں۔ واشنگٹن کا خیال ہے کہ چین متنازع ملکیت والے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے عسکری طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے استحکام کے لیے اْس کے اقدامات جائز ہیں اور گذشتہ ماہ واشنگٹن میں چینی صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر براک اوباما کے درمیان ملاقات میں چینی صدر نے کہا تھا کہ چین کا ’اس جزیرے پر فوج تعینات‘ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔