جمشید رتن ٹاٹا بھارت کے سب سے بڑے کاروباری گروپ کے مالک تھے‘ ٹاٹاگروپ 1932ء میں سول ایوی ایشن میں بھی آ گیا‘ برطانوی حکومت نے اس زمانے میں سول ایوی ایشن کی پالیسی بنائی تھی جس کے تحت پرائیویٹ کمپنیوں کو ائیرلائینز کی اجازت دے دی گئی تھی‘ جمشید ٹاٹا نے اس سہولت کا فائدہ اٹھایا اور 1932ء میں ٹاٹا ائیرلائینز کی بنیاد رکھ دی‘ یہ ہندوستان کی پہلی پرائیویٹ ائیرلائین تھی‘ یہ 1953ء تک چلتی رہی جس کے بعد بھارتی حکومت نے اسے قومیا کر اس کا نام ائیر انڈیا رکھ دیا‘ پاکستان کے قیام تک ہندوستان میں مسلمان سول ایوی ایشن کی انڈسٹری میں نہیں آئے تھے‘ اس زمانے میں کولکتہ میں اصفہانی گروپ تھا‘ یہ لوگ ایران کے شہر اصفہان سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے ‘ تجارت شروع کی اور آہستہ آہستہ جڑ پکڑتے چلے گئے‘ بھارت کے ہندو چمڑے کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتے تھے چناں چہ لیدر کی صنعت میں گنجائش تھی‘ مسلمانوں نے اس گنجائش کا فائدہ اٹھایا چناں چہ اس زمانے میں سہگل ہوں‘ اصفہانی ہوں یا پھر آدم جی فیملی ہو یہ سب کسی نہ کسی حد تک چمڑے کی صنعت سے وابستہ تھے‘
کولکتہ اور ممبئی اس زمانے میں بزنس کے مراکز تھے‘ اصفہانی فیملی کا بزنس بھی کولکتہ اور ممبئی میں تھا‘اصفہانی فیملی کے ایک فرد مرزا احمد اصفہانی کو سول ایوی ایشن میں دل چسپی تھی‘ اس نے دو مسلمان بزنس مینوں کے ساتھ مل کر 1946ء میں کولکتہ میں اورینٹ ائیرلائینز کے نام سے ائیرلائین کی بنیاد رکھ دی‘ ہندوستانی پریس نے اسے پہلی مسلمان ائیرلائین کا ٹائٹل دے دیا‘ اورینٹ کے پاس شروع میں صرف دو روٹس تھے‘ کولکتہ سے کراچی اور کولکتہ سے رنگون (برما)۔ پاکستان کے قیام کے بعد اصفہانی فیملی کراچی اور چٹاگانگ شفٹ ہو گئی یوں اورینٹ ائیرویز ملک کی پہلی ائیرلائین بن گئی‘ اس کی فلائیٹس کراچی سے لاہور‘ کراچی سے دہلی‘ کراچی سے کولکتہ اور کراچی سے ڈھاکا جاتی تھیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کراچی سے ہفتے میں ایک دن مظفر آباد (آزاد کشمیر) بھی فلائیٹ آتی تھی‘ اصفہانی فیملی ائیرلائین کو بڑے جذبے سے چلا رہی تھی‘ مرزا احمد اصفہانی اس کے چیئرمین تھے‘ ان کے ایک بھائی مرزا محمد اصفہانی امریکا میں پاکستان کے پہلے سفیر اور دوسرے بھائی ضیاء اصفہانی سوئٹزر لینڈ اور اٹلی میں پاکستان کے پہلے سفیر تھے‘ مرزا محمد اصفہانی حسین حقانی کے سسر تھے‘ ان کی صاحب زادی فرح ناز اصفہانی (حسین حقانی کی بیگم) پیپلز پارٹی کے دور میں رکن قومی اسمبلی رہیں‘ مرزا محمد اصفہانی خاندانی جھگڑوں سے دل برداشتہ ہو کر سندھ کلب میں شفٹ ہو گئے اور نومبر 2013ء میں ان کا وہیں انتقال اور جنازہ ہوا‘ بہرحال اصل کہانی کی طرف واپس آتا ہوں۔
بھارتی حکومت نے 1953ء میں ٹاٹا ائیرلائینز کو قومیا کر ائیرانڈیا میں تبدیل کر دیا‘ پاکستان میں اس وقت محمد علی بوگرا وزیراعظم تھے‘ یہ اصفہانی فیملی کو پرانا جانتے تھے‘ دونوں آل انڈیا مسلم لیگ میں رہے تھے اور بنگال میں اکٹھے سیاست اور بزنس کرتے رہے تھے‘ یہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے 1955ء میں اورینٹ ائیرلائینز کو قومیا لیا اور اسے پاکستان ائیرلائینز (پی آئی اے) کا نام دے دیا یوں یہ نیشنل فلیگ کیریئر بن گئی تاہم اس کے پہلے چیئرمین مرزا احمد اصفہانی ہی رہے‘ یہ اس عہدے پر 1962ء تک کام کرتے رہے‘ اورینٹ پی آئی اے میں تبدیل ہو گئی‘ یہ حکومت کے پاس بھی چلی گئی لیکن یہ اس کے باوجود دنیا کا نامور ادارہ رہی‘ یہ چین کا بیرونی دنیا سے پہلا اورواحد رابطہ تھی‘ پی آئی اے بیجنگ کی سرزمین کو چھونے والی واحد ائیرلائین تھی‘ یہ امریکا اور یورپ کا مشرقی ممالک سے بھی پہلا رابطہ تھی‘ پی آئی اے کی وجہ سے 1980ء کی دہائی تک کراچی کوآج کے دوبئی جیسی اہمیت حاصل تھی‘ فلائیٹس میں میوزک اور ویڈیو انٹرٹیمنٹ کی بانی بھی پی آئی اے تھی‘ 1970ء کی دہائی میں پی آئی اے نے ائیرمالٹا کی انٹرنیشنل بڈ جیتی اور مالٹا جا کر ائیر مالٹا کی بنیاد رکھی‘ مالٹا میں آج بھی بچوں کے سلیبس میں پی آئی اے کا پورا باب شامل ہے‘ ایمریٹس ائیر لائینز کی بنیاد بھی پی آئی اے نے رکھی تھی‘ ہم نے ایمریٹس کو 1985ء میں عملے سمیت جہاز دیا تھا‘ ایمریٹس کی فلائیٹس شروع میں کراچی سے دوبئی کے لیے چلتی تھیں‘ ایمریٹس کے کوڈ میں آج بھی’’ ای کے‘‘ کا لفظ ہے‘ ای کا مطلب ایمریٹس ہے اور کے کراچی کی نشاندہی کرتا ہے‘ پی آئی اے کے گرائونڈ اور فضائی عملے نے بعدازاں سنگا پور ائیرلائینز‘قطرائیرویز اور اتحاد ائیرویز کی گروتھ میں بھی اہم کردار ادا کیا ‘
پی آئی اے کا پہلا بوئنگ جہاز1970ء کی دہائی میں استنبول میں لینڈ ہوا تھا‘ استنبول کا ائیرپورٹ اس وقت چھوٹا تھا لہٰذا ہمارے جہاز کی لینڈنگ کے لیے ترکش گورنمنٹ نے نئی ائیر سٹرپ بنائی اور پوری کابینہ نے ائیرپورٹ آ کر جہاز کا استقبال کیا‘ چین کے بانی مائوزے تنگ کا ذاتی جہاز بھی جنرل ایوب خان نے پی آئی اے سے لے کر گفٹ کیا تھا‘ یہ آج بھی پاکستان کے شکریے کے ساتھ چین کے میوزیم میں کھڑا ہے لیکن پھر یہ بھی باقی اداروں کی طرح زوال پذیر ہو گئی۔ پی آئی اے کی تباہی کی بے شمار وجوہات میں سے سیاسی بھرتیاں‘ یونین بازی اور کرپشن اہم ترین تھیں یہاں تک کہ صورت حال یہ ہو گئی‘ اس کے 30 جہازوں میں سے صرف 18 بلکہ 14 پرواز کے قابل ہیں باقی تمام جہاز ائیرپورٹس پر کھڑے ہیں‘ پی آئی اے کے ماہر انجینئر ایک جہاز کا پرزہ نکال کر دوسرے میں لگاتے ہیں‘ اسے اڑاتے ہیں اور جب یہ واپس آتا ہے تو اس کا پرزہ نکال کر دوسرے میں لگا کر اسے اڑنے کے قابل بنا دیتے ہیں اوردوسرا جہاز رن وے پر کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ پی آئی اے کی حالت یہ ہے جنوری 2021ء میں ملائیشیا نے بوئنگ 777 مسافروں سمیت یرغمال بنا لیا‘ پی آئی اے نے برطانیہ کی کمپنی کے 14 ملین ڈالر ادا کرنا تھے لہٰذا کمپنی نے کوالالمپور میں جہاز پر قبضہ کر لیا‘ یہ خبر پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنی‘ یہ واقعہ دوسری مرتبہ 2023ء میں دہرایا گیا‘ کوالالمپور میں دوبارہ بوئنگ 777 پر قبضہ کر لیا گیا‘ پی آئی اے نے اس مرتبہ ساڑھے چار ملین ڈالر ادا کرنا تھے‘ یہ دونوں قبضے برطانیہ کے عدالتی احکامات کے بعد ہوئے تھے‘ پی آئی اے کا روزانہ خسارہ 15 کروڑ سے 24 کروڑ روپے ہے جب کہ 2018ء سے اب تک یہ تین اعشاریہ تین بلین ڈالر کی مقروض ہے یوں یہ ملک کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گئی۔
پی آئی اے بہرحال 23 دسمبر 2025ء کو فروخت ہو گئی‘ اسے عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے میں خرید لیا‘ عارف حبیب کے ساتھ فاطمہ گروپ‘ لیک سٹی‘ فیروز لیب اور سٹی سکول گروپ شامل ہیں اور عن قریب فوجی فرٹیلائزر بھی ان کے ساتھ شریک ہو جائے گی‘ یہ گروپ 75 فیصد شیئرز کا مالک ہو گا باقی 25 فیصد حصص حکومت پاکستان کے پاس رہیں گے‘ اب سوال یہ ہے کیا عارف حبیب کنسورشیم حکومت کو 135 ارب ادا کرے گا؟ جی نہیں‘ حکومت کو صرف ساڑھے سات فیصد رقم ملے گی‘ یہ رقم دس ارب بارہ کروڑ روپے بنتی ہے باقی 125 ارب روپے پی آئی اے کی فلاح وبہبود‘ تعمیر اور بحالی پر خرچ ہوں گے گویا عملاً گروپ کو صرف دس ارب روپے ادا کرنا پڑیں گے اور یہ لوگ یہ رقم ایک دن میں پی آئی اے کے شیئرز سے کما لیں گے گویا عملاً پی آئی اے مفت فروخت ہوئی‘ آپ کو یاد ہو گا حکومت نے اکتوبر 2024ء میں بھی پی آئی اے کی بڈنگ کرائی تھی‘ اس وقت اس کے لیے سب سے بڑی بولی بلیوورلڈسٹی نے دی تھی‘ وہ بھی دس ارب روپے تھی تاہم حکومت نے یہ آفر مسترد کر دی تھی لیکن آج اگر دیکھا جائے تو پی آئی اے 10 ارب روپے میں ہی فروخت ہوئی گویا بلیو ورلڈ سٹی نے 2024ء میں اس کی ٹھیک قیمت لگائی تھی لیکن اس کے باوجود یہ سودا برا نہیں‘ حکومت کا روزانہ 15 سے 24 کروڑ روپے نقصان ہو رہا تھا‘ یہ نقصان رک گیا‘ یہ بھی غنیمت ہے‘ دوسرا سوال یہ ہے پی آئی اے کی نجکاری اگر اتنی آسان تھی تو حکومتیں آج تک یہ کیوں نہیں کر سکیں؟ اس کی وجہ بدنیتی تھی‘ پی آئی اے حکومتوں کے لیے ہر زمانے میں دودھ دینے والی گائے رہی‘ پیپلزپارٹی ہو‘ ایم کیو ایم ہو یا پھر ن لیگ‘ یہ اپنے نااہل کارکنوں کوپی آئی اے میں پارک کردیتی تھیں اور یوں دنیا کی بہتر ین ائیر لائین تنخواہوں کے بوجھ تلے دب کر ختم ہو گئی‘
یہ حکومت بھی نج کاری کو ٹالنا چاہتی تھی لیکن فیلڈ مارشل نے یہ ڈنڈے کے ساتھ کروائی‘ یہ فیصلہ بنیادی طور پر ستمبر 2024ء میں کراچی کے بزنس مینوں کے ساتھ فیلڈ مارشل کی میٹنگ کے دوران ہوا تھا‘ جنرل عاصم منیر نے بزنس مینوں کو مشورہ دیا تھا آپ کنسورشیم بنا کر پی آئی اے خرید لیں‘ عارف حبیب نے اس پر رضا مندی کا اظہار کر دیا اور یوں یہ معاملہ شروع ہو گیا لیکن اس کے باوجودبھی 15مہینے لگ گئے‘ کیوں؟ کیوںکہ بیوروکریسی نیلامی کے راستے میں روڑے بچھاتی چلی جا رہی تھی بہرحال درآید درست آید۔ میری اب درخواست ہے آپ باقی 20 بڑے اداروں سے بھی جان چھڑا لیں‘ ملک کا ہر وہ ادارہ جو خسارے میں جا رہا ہے اسے نیلام کریں اور جان چھڑائیں اور یہ فیصلہ کر لیں حکومت کوئی کاروبار نہیں کرے گی‘ یہ صرف پالیسی بنائے گی اور وہ بھی سیدھی اور سادی ہوگی تاکہ ملک آگے بڑھ سکے‘ امریکا‘ چین اور یورپ میں ایف 35 اور جے 35 جیسے جنگی طیارے بھی پرائیویٹ کمپنیاں بناتی ہیں اور میزائل‘ آب دوزیں اور نیوکلیئر پلانٹ بھی بزنس مین تیار کرتے ہیں جب کہ ہماری حکومتیں ریلوے اور ائیرلائین کے ٹکٹ بیچ رہی ہیں‘ ہم اگر اس طرح دنیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری حکومت کو دو چار لاکھ گائے اور بھینسیں بھی رکھ لینی چاہییں تاکہ وزیراعظم صبح اٹھ کر سب سے پہلے دودھ بیچا کریں اور اگر اس کے بعد وقت بچ جائے تو یہ حکومتی کھیتوں میں سبزیاں کاشت کر لیا کریں‘ ہمیں اب مان لینا چاہیے کاروبار حکومتوں کا کام نہیں ہوتا‘ یہ کام عارف حبیب اور گوہراعجاز جیسے لوگ ہی کرتے اچھے لگتے ہیں چناں چہ ان پر اعتماد کریں‘ یہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔















































