پیر‬‮ ، 22 دسمبر‬‮ 2025 

جہانگیری کی جعلی ڈگری

datetime 23  دسمبر‬‮  2025 |

میرے پاس چند دن قبل ایک نوجوان آیا‘ وہ الیکٹریکل انجینئر تھا‘ والدین نے بڑی مشکل سے اسے تعلیم دلائی تھی جس کے بعد وہ بے روزگاری کے طویل دور سے گزر رہاتھا‘ وہ چار سال سے نوکری کی درخواستیں دے رہا تھا لیکن نوکری نہیں ملی‘ میں بڑی دیر اس کی شکایتیں سنتا رہا‘ اس کے ساتھ کس دفتر نے کیا کیا‘ اس نے کہاں کہاں اپلائی کیا اور کس نے اسے کیا جواب دیا وغیرہ وغیرہ‘ وہ مجھے سناتا رہا اور میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ جب تھک گیا تو میں نے اس سے دو سوال کیے‘ پہلا سوال‘ کیا تم اپنے گھر کی وائرنگ کر سکتے ہو؟ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر جواب دیا‘ سر میں الیکٹریکل انجینئر ہوں الیکٹریشن نہیں ہوں‘ وائرنگ کرنا الیکٹریشنز کا کام ہوتا ہے‘

میں نے ہنس کر اپنی نالائقی کا اعتراف کیا اور پھر پوچھا اگر الیکٹریکل انجینئر وائرنگ نہیں کر سکتا تو پھر اس کا کیا کام ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا’’الیکٹریکل انجینئرز کا کیا کام ہوتا ہے؟‘‘ اس کا جواب تھا’’ ہم کام کی نگرانی کرتے ہیں‘ ہم اپنے سامنے کام کراتے ہیں‘‘ میں نے اس کے بعد اس سے دوسرا سوال کیا ’’آپ کو اگر ایک کام نہیں آتا تو پھر آپ یہ کام دوسروں سے کرائیں گے کیسے؟‘‘ وہ بڑی دیر تک مجھے مطمئن کرتا رہا‘ اس نے درجنوں مثالیں دیں لیکن مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا‘ سوال یہ ہے کیا یہ صرف اس نوجوان کا المیہ ہے؟ کیا صرف یہ نالائق ہے یا پھر یہ مجموعی طور پر پورے ملک کا مسئلہ ہے؟ میرا خیال ہے یہ ہمارے پورے نظام تعلیم کا المیہ ہے‘ ہمارا ایجوکیشن سسٹم بدقسمتی سے لاکھوں روپے وصول کر کے نوجوانوں کو صرف کاغذ کا ٹکڑا دیتا ہے اور یہ بے چارے اسے اٹھا اٹھا کر پھرتے رہتے ہیں‘ آپ کبھی کسی نوجوان کی یونیورسٹی کی فیس‘ اس کے اخراجات اور اس کے وقت کی قیمت کا تعین کریں اور اس کے بعد اس کی نوکری سے حاصل ہونے والی تنخواہ دیکھیںتو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ نوجوان دس سال میں صرف اپنی ڈگری کے اخراجات پورے کرے گا‘ دوسرا المیہ اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایم بی بی ایس کی ڈگری ڈاکٹر کو ڈاکٹر‘ انجینئرنگ کی ڈگری انجینئر کو انجینئر ‘ وکالت کی ڈگری وکیل کو وکیل اور صحافت کی ڈگری صحافی کو صحافی نہیں بنا تی‘ ہمارے طالب علم گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہوتے ہیں لیکن عملاً ان کی ڈگریاں کاغذ کے ٹکڑے ہوتی ہیں اوریہ کاغذ کے ان ٹکڑوں کے لیے لاکھوں روپے برباد کر دیتے ہیں‘ پاکستانی نظام تعلیم سے کشید ہونے والی زیادہ تر ڈگریاں طالب علم کی یادداشت کا کمال ہوتی ہیں‘

کس نے کتنا رٹا لگایا‘ امتحان کے دوران کس کی یادداشت کتنی حاضر تھی‘ کس نے سلیبس کے کتنے حصے کور کیے یا امتحانات کے دوران کس کو کتنی غیبی مدد ملی؟ ہماری ڈگریاں ان سوالوں کا جواب ہوتی ہیں‘ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن میں آج بھی امتحانات کے دوران نقل ہوتی ہے اور اسے روکنے کے لیے امتحانی سنٹرز میں باقاعدہ پولیس بھجوانا پڑتی ہے یا چھاپے مارنا پڑتے ہیں‘پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے دوبارہ امتحان دینا پڑتا ہے اور اس میں پچھلے سال ایک لاکھ 40 ہزارطالب علم شریک ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ان امتحانات میں بھی نقل کی شکایات عام ہیں‘ یہ امتحان پاس کرنے والے صرف دس فیصد سٹوڈنٹس کو میڈیکل کالجز میں داخلہ ملتا ہے اور یہ اس کے بعد پانچ سال میڈیکل کالجز کو سالانہ 18 لاکھ سے 30 لاکھ روپے فیس دیتے ہیں‘ کتابوں‘ رہائش‘ ٹرانسپورٹیشن اور باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں گویا میڈیکل کالج کے طالب علم کا سالانہ خرچ 30 سے پچاس لاکھ روپے ہوتا ہے‘ سٹوڈنٹس کو بے تحاشا پڑھنا بھی پڑتا ہے لیکن آپ المیہ دیکھیے میڈیکل کالج سے ٹاپ کرنے کے بعد بھی میڈیکل کے طالب علم اپنی والدہ یا والد کا علاج نہیں کر سکتے‘ عام کمپائونڈر یا میڈیکل اسسٹنٹ ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے‘ باقی شعبوں کی صورت حال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے‘ لاء کالجز سے ایل ایل بی کے بعد وکیلوں کو سڑکوں پر دھکے کھانا پڑتے ہیں‘ انجینئر ڈگریاں اٹھا کر نوکری کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور ایم بی اے (ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کے ڈگری ہولڈرز نوکری کی درخواستیں دے رہے ہوتے ہیں‘ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے ہمارا نظام تعلیم ’’نان پریکٹیکل‘‘ ہے‘ یہ صرف ڈگری دیتا ہے علم اور تجربہ نہیں چناں چہ طالب علم کی اصل تعلیم یونیورسٹی کے بعد شروع ہوتی ہے‘ یہ بے چارہ گلیوں اور سڑکوں پر دھکے کھاکھا کر دس بیس برسوں میں کام سیکھتا ہے اور اس کے بعد اس کی گروتھ پھر شروع ہوتی ہے‘ دنیا میں یہ سسٹم ختم چکا ہے‘ آپ یورپ‘ امریکا‘ آسٹریلیا حتیٰ کہ سنٹرل ایشیا میں جا کر دیکھیں آپ کو وہاں یونیورسٹی ورکشاپ دکھائی دے گی‘ وہاںپریکٹیکل پہلے ہوگا اور تھیوری بعد میں پڑھائی جائے گی‘ قانون کی تعلیم کورٹ روم میں دی جائے گی‘ انجینئرنگ کی ورکشاپ‘ میڈیکل کی ہسپتال میں اور بزنس کی تعلیم بزنس کے ذریعے دی جائے گی اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم کے لیے بزنس لازم ہو گا اگر یہ بزنس نہیں کرے گا تو اسے بزنس کی ڈگری نہیں ملے گی۔

ہم جعلی ڈگری کس کو کہتے ہیں؟ ایک ایسی ڈگری جسے حاصل کرنے کے لیے طالب علم کالج یا یونیورسٹی نہیں جاتایا یہ رقم دے کر یا کسی دوسرے کو امتحان میں بٹھا کر ڈگری لے لیتا ہے یوں اس کے پاس کاغذ کا ٹکڑا آ جاتا ہے لیکن عملی نالج نہیں ہوتا لیکن سوال یہ ہے ہمارے طالب علم جو مسلسل یونیورسٹی جاتے ہیں‘ جوکبھی کلاس مس نہیں کرتے‘ جوسارے امتحان دیتے ہیں اور جو نوے فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں کیا یہ اپنے فن یا علم کے ماہر ہوتے ہیں؟ جی نہیں بلکہ ہرگز نہیں لہٰذا ہمیں کسی دن یہ حقیقت ماننی پڑے گی ہمارے ملک میں جعلی ڈگری ہولڈر اور اصلی ڈگری ہولڈر میں کوئی فرق نہیں ہوتا بلکہ رکیے بدقسمتی سے جعلی ڈگری ہولڈرز اصلی ڈگری ہولڈرز سے زیادہ باصلاحیت اور ماہر ہوتے ہیں‘ یہ عملی طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں‘ ان کے پاس صرف ڈگری کی کمی ہوتی ہے اور یہ کاغذ کا یہ ٹکڑا خرید کر اپنے آفس کو مطمئن کر دیتے ہیں‘ میں اس سلسلے میں طارق محمود جہانگیری کی مثال پیش کرتا ہوں‘ یہ راولپنڈی کے کام یاب وکیل تھے‘ یہ وکالت اور لائرز پالیٹکس سے ہوتے ہوئے دسمبر 2020ء میں ہائی کورٹ کے جج بن گئے اور انہوں نے 2025ء تک سینکڑوں مقدموں کے فیصلے کیے لیکن پھر ’’اچانک‘‘ ان کی ڈگری جعلی نکل آئی اور ان کی اپنی عدالت نے انہیں 18 دسمبر2025ء کو جج کی پوزیشن سے فارغ کر دیاجس کے بعد یہ اب جسٹس نہیں رہے لیکن یہ اپنے پیچھے چند سوال چھوڑ گئے مثلاً یہ اگر ڈگری کے بغیر تھے اور اگر انہوں نے لاء کالج سے لاء نہیں پڑھا تھا تو پھر یہ وکیل کیسے بن گئے؟ یہ پریکٹس کیسے کرتے رہے اور یہ آخر میں ہائی کورٹ کے جج کیسے بن گئے اور یہ عدالت میں فیصلے کیسے دیتے اور لکھتے رہے؟یہ ظاہر ہے ممکن نہیں‘ آپ کو عدالت کے لیے مقدمہ تیار کرنا پڑتا ہے‘

جج کے سامنے دلائل دینے پڑتے ہیں اور جب تک آپ کی پریکٹس ایک خاص لیول تک نہیں پہنچتی آپ اس وقت تک جج کے لیے کوالی فائی نہیں کرتے اورجج بننے کے بعد بھی انصاف کرنے کے لیے آپ کا قانون کا ایکسپرٹ ہونا ضروری ہے‘ آپ کو فیصلہ لکھنے کے لیے بھی قانون کی زبان اور قانون دونوں کا واقف ہونا چاہیے اور اگر طارق محمود جہانگیری یہ نہیں جانتے تھے تو پھر یہ 34 سال یہ کام کیسے کرتے رہے؟ اور دوسرا سوال یہ اگر عمران خان کو اندھا دھند سپورٹ نہ کرتے اور 26مارچ 2024ء کو چیف جسٹس کو خط لکھ کر خفیہ اداروں کی شکایت نہ کرتے تو کیاپھر بھی ان کی جعلی ڈگری پکڑی جاتی یا یہ جج کے معزز عہدوں سے فارغ ہوتے؟ ہرگز نہیں لہٰذا ان کا قصور جعلی ڈگری نہیں تھا‘ ان کا قصور ریاست کی منشاء سے ٹکرانا یا اسے ناراض کرنا تھا اور یہ اگر آج ریاست کو راضی کر لیں تو ان کی جعلی ڈگری سپریم کورٹ سے اصلی ہو جائے گی اور یہ اپنے عہدے پر بھی عزت کے ساتھ بحال ہو جائیں گے چناں چہ مسئلہ ڈگری نہیں تھا ناراضی تھی‘ تیسرا اگر طارق محمود جہانگیری کی ڈگری جعلی تھی تو کیا پھر یہ حقیقت ثابت نہیں ہو جاتی ہمارے سسٹم میں ڈگری کی کوئی اہمیت یا حیثیت نہیں‘یہ ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے 2010ء میں دنیا کو کیا طلسماتی الفاظ عنایت کیے تھے ’’ڈگری ‘ڈگری ہوتی ہے‘ یہ اصلی ہو یا نقلی‘‘ رئیسانی صاحب کی بات سو فیصد درست نکلی‘ ہمارے ملک میں اصلی اور نقلی ڈگریوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا بلکہ مزید رکیے جعلی ڈگری ہولڈرز زیادہ ترقی کرتے ہیں‘ یہ ہائی کورٹ کے جج تک بن جاتے ہیں کیوں کہ یہ جانتے ہیں ان کی ڈگری جعلی ہے چناں چہ یہ اسے چھپانے کے لیے زیادہ محنت کرتے ہیں‘ یہ خود کو زیادہ پروفیشنل‘ زیادہ محنتی اور زیادہ باصلاحیت ثابت کرتے ہیں‘ جہانگیری صاحب کی جعلی ڈگری نے یہ بھی ثابت کر دیا ہمارے سسٹم میں ڈگری اضافی ہے‘ اصل کوالی فکیشن آپ کا کام ہے‘ آپ کو اگر کام آتا ہے‘ آپ جج کے سامنے کھڑے ہو کر کالاکوٹ پہن کر قانونی دلائل دے سکتے ہیں‘ انگریزی بول سکتے ہیں اور آپ اگر قانونی گٹھ جوڑ کے ماہر ہیں تو پھر کوئی شخص آپ سے آپ کی ڈگری نہیں پوچھے گا‘ کوئی آپ کی یونیورسٹی تک نہیں جائے گا اور یہ ہے اس ملک اور اس کے نظام تعلیم کی حقیقت۔

ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہماری یونیورسٹیاں طالب علموں کو صلاحیت‘ مہارت اور اہلیت نہیں دے رہیں‘ یہ انہیں لاکھوں روپوں کے عوض صرف کاغذ دے رہی ہیں اوریہ کاغذ اصلی ہوں یا جعلی کوئی فرق نہیں پڑتا‘ میں اس دن اپنے نظام تعلیم کو سلام پیش کروں گا جس دن مکینیکل انجینئر اپنی گاڑی خود ٹھیک کر سکے گا‘ الیکٹریکل انجینئر اپنے گھر کی وائرنگ کر لے گا‘ ایم بی بی ایس کا طالب علم پانچویں برس میں اپنے والدین کا علاج کر سکے گا‘ ایم بی اے کا طالب علم ڈگری سے پہلے دس پندرہ لوگوں کی کمپنی بنا کر چلا رہا ہو گا اور لاء کا طالب علم ایل ایل بی سے پہلے پورا کیس لکھ کر جج صاحب کے سامنے پیش کرے گا اور جج اس کے حق میں فیصلہ دے گا‘ ہماری یونیورسٹیاں جب تک یہ نہیں کرتیں اس وقت تک ملک کی ساری ڈگریاں جعلی اور سارے تعلیمی ادارے شاپنگ سنٹر ہیں‘ یہ صرف ’’منی میکنگ مشینیں‘‘ ہیں۔

موضوعات:



کالم



جہانگیری کی جعلی ڈگری


میرے پاس چند دن قبل ایک نوجوان آیا‘ وہ الیکٹریکل…

تاحیات

قیدی کی حالت خراب تھی‘ کپڑے گندے‘ بدبودار اور…

جو نہیں آتا اس کی قدر

’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…