اسلام آباد(نیوز ڈ یسک) امریکا کے بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 1 لاکھ 19 ہزار نئی نوکریاں پیدا ہوئیں، جو ماہرین کی توقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔عالمی میڈیا کے مطابق یہ رپورٹ اصل میں 3 اکتوبر کو جاری ہونا تھی، تاہم حکومتی شٹ ڈاؤن کے باعث اس کی اشاعت تاخیر کا شکار ہوئی۔تازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ شٹ ڈاؤن سے قبل روزگار کے مواقع تو بڑھ رہے تھے، لیکن مجموعی لیبر مارکیٹ کمزور ہوتی نظر آ رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نوکریاں ہیلتھ کیئر، ریستوران و فوڈ سروسز اور سماجی بہبود کے شعبوں میں پیدا ہوئیں۔اس کے برعکس مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تقریباً 6 ہزار ملازمتیں ختم ہوئیں، حالانکہ یہی وہ شعبہ ہے جسے ٹرمپ انتظامیہ اپنی معاشی پالیسیوں کا اہم حصہ قرار دیتی رہی ہے۔اسی طرح ٹرانسپورٹ اور ویئرہاؤسنگ کے شعبے میں بھی 25 ہزار 300 نوکریوں کا نمایاں خسارہ سامنے آیا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ لاکھوں نئی اسامیوں کے باوجود ستمبر میں بے روزگاری کی شرح 4.3 سے بڑھ کر 4.4 فیصد ہوگئی۔یہ اضافہ اس وجہ سے ہوا کہ مزید 4 لاکھ 50 ہزار افراد نے لیبر فورس میں شمولیت اختیار کی۔رپورٹ کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ بھی سست روی کا شکار ہے، جو امریکی معیشت کی کمزوری کی ایک اور علامت ہے۔
سرکاری رپورٹس میں تاخیر کے باعث نجی اداروں کے اعداد و شمار سے صورتحال مزید تشویشناک دکھائی دے رہی ہے۔گزشتہ چند ہفتوں میں بڑی کمپنیوں کی جانب سے ہزاروں ملازمین نکالنے کے اعلانات کیے گئے ہیں، جن میں ایمازون، جنرل موٹرز، آئی بی ایم، مائیکروسافٹ اور پیراماؤنٹ شامل ہیں۔حال ہی میں ویریزن نے بھی 13 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا، جب کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں تقریباً 39 ہزار ملازمین کو برطرفی کے نوٹس جاری ہوئے۔اتنی زیادہ تعداد میں نوکریوں سے محرومی اس سے قبل آخری بار مئی میں دیکھی گئی تھی یا پھر صرف بڑے مالیاتی بحرانوں کے دوران ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔















































