اسلام آباد (نیوز ڈیسک) قطر کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی سے متعلق اپنے سرکاری بیان میں ترمیم کرتے ہوئے “سرحد” (بارڈر) کا لفظ ہٹا دیا ہے، جس کے بعد اس تبدیلی نے سیاسی اور سفارتی سطح پر بحث چھیڑ دی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق، دوحہ میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد جاری کیے گئے ابتدائی بیان میں کہا گیا تھا کہ “جنگ بندی دونوں برادر ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے”۔ تاہم تقریباً 18 گھنٹے بعد جاری کردہ نئے ورژن میں “سرحد” کا حوالہ ہٹا کر صرف “دونوں برادر ممالک کے درمیان” کی عبارت شامل کی گئی۔
ذرائع کے مطابق، یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب سوشل میڈیا اور افغان حلقوں میں اس جملے پر تنقید شروع ہوئی۔ بعض تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ “سرحد” کے ذکر سے قطر غیر ارادی طور پر ڈیورنڈ لائن کو ایک باقاعدہ بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی تناظر میں قطری وزارتِ خارجہ نے بغیر کسی باضابطہ وضاحت کے خاموشی سے بیان میں ترمیم کر دی۔
اپ ڈیٹ شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ “قطر کی ریاست امید کرتی ہے کہ یہ قدم دونوں برادر ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور خطے میں دیرپا امن کے قیام کی بنیاد بنے گا”۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تبدیلی قطر کی ایک محتاط سفارتی حکمتِ عملی کی عکاس ہے، جس کا مقصد افغانستان میں ممکنہ ردِعمل سے بچنا اور حساس مسئلے یعنی ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے غیر جانبدار رہنا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ افغان طالبان سمیت ماضی کی تمام افغان حکومتیں ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہیں، جب کہ پاکستان اسے اپنی سرکاری اور حتمی سرحد قرار دیتا ہے۔
طالبان کے وزیرِ دفاع محمد یعقوب مجاہد نے دوحہ مذاکرات کے بعد ورچوئل پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ بات چیت کے دوران ڈیورنڈ لائن پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ انہوں نے اسے “خیالی سرحد” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات کا فیصلہ قوموں کی سطح پر ہونا چاہیے۔
سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح نے قطر کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ لفظ ’بارڈر‘ ہٹانے کا فیصلہ افغان عوامی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا، جو اس مسئلے کو انتہائی حساس تصور کرتے ہیں۔