اسلام آباد (نیوز ڈیسک) برطانیہ میں معروف “گرومنگ گینگ” کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے پاکستانی نژاد 65 سالہ محمد زاہد کو 35 سال قید کی سزا سنا دی۔ وہ اس گینگ کا سرغنہ قرار پایا۔
برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق، مقدمے میں ملوث دو متاثرہ لڑکیوں کی شناخت خفیہ رکھی گئی، جنہیں عدالت میں “اے” اور “بی” کے ناموں سے پکارا گیا۔ یہ دونوں اب 30 سال کی خواتین ہیں اور تقریباً 20 سال قبل پیش آنے والے واقعات کے خلاف انصاف کے لیے عدالت پہنچی تھیں۔
طویل عدالتی کارروائی کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ ملزمان نے 2001 سے 2006 کے دوران مغربی انگلینڈ میں دو کمسن لڑکیوں کو جنسی استحصال، زیادتی اور دیگر سنگین جرائم کا نشانہ بنایا۔
استغاثہ کے مطابق، گینگ نے لڑکیوں کو پہلے تحائف، پیسے اور کھانے پینے کی اشیا دے کر اپنے جال میں پھنسایا۔ پھر انہیں نشہ آور اشیا کی لت لگا دی گئی تاکہ وہ ان کے قبضے میں رہیں۔
بعد ازاں ملزمان نے نہ صرف خود ان کے ساتھ بار بار زیادتی کی بلکہ انہیں دیگر ٹیکسی ڈرائیورز اور مردوں کے ساتھ تعلقات پر مجبور کیا۔ متاثرہ لڑکیاں عدالت میں یہ بھی نہ بتا سکیں کہ ان پر کتنی بار زیادتی کی گئی — ان کے مطابق پانچ برسوں میں درجنوں مردوں نے سینکڑوں مرتبہ جنسی زیادتی کی۔
ان لڑکیوں کے ساتھ ظلم کے یہ واقعات کاروں، خالی گوداموں، فلیٹس اور دیگر گندے، تنہائی والے مقامات پر پیش آئے۔
عدالت نے دیگر ملزمان کو بھی مختلف مدت کی سزائیں سنائیں، جن میں شامل ہیں:
- قیصر بشیر (50 سالہ) – 29 سال قید
- مشتاق احمد (67 سالہ) – 27 سال قید
- محمد شہزاد (44 سالہ) – 26 سال قید
- نعیم اکرم (49 سالہ) – 26 سال قید
- نثار حسین (41 سالہ) – 19 سال قید
- روہیز خان (39 سالہ) – 12 سال قید
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ کیس برطانیہ میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے بدترین واقعات میں شمار کیا جائے گا، جس نے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔