واشنگٹن(این این آئی)امریکا نے دفاعی کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ میزائلوں اور دیگر اہم ہتھیاروں کی پیداوار کو 2سے 4گنا تک بڑھائیں تاکہ چین کے ساتھ ممکنہ تنازع کی صورت میں اسلحے کی کمی سے بچا جاسکے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون امریکی ہتھیاروں کے کم ذخائر پر تشویش کا شکار ہے اور اسی لیے اپنے میزائل سپلائرز پر زور دے رہا ہے کہ وہ انتہائی تیز رفتار شیڈول کے تحت پیداوار میں اضافہ کریں۔ اس حوالے سے پینٹاگون کے اعلیٰ حکام اور امریکی میزائل ساز کمپنیوں کے نمائندوں کے درمیان کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، بتایا گیا کہ ڈپٹی ڈیفنس سیکرٹری اسٹیو فینبرگ براہِ راست اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں اور ہفتہ وار بنیادوں پر کمپنیوں کے سربراہان سے رابطے میں رہتے ہیں۔
جون میں پینٹاگون نے اہم میزائل ساز کمپنیوں کو ایک اجلاس میں طلب کیا جس میں امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین نے بھی شرکت کی، اس اجلاس میں لاک ہیڈ مارٹن، ریتھیون، اینڈریل انڈسٹریز اور دیگر کمپنیوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ان اداروں نے کہا کہ وہ مزید ملازمین بھرتی کر رہے ہیں، فیکٹریوں کی توسیع کر رہے ہیں اور اضافی پرزہ جات کا ذخیرہ تیار کررہے ہیں تاکہ ممکنہ طلب کو پورا کیا جاسکے۔رپورٹ کے مطابق جون میں ٹرمپ انتظامیہ نے مزید جارحانہ پیداواری اہداف مقرر کیے تھے، اس دوران اسرائیل اور ایران کے درمیان 12روزہ جنگ میں امریکا نے سیکڑوں جدید میزائل استعمال کیے جس سے امریکی ذخائر مزید کم ہوگئے۔ذرائع کے مطابق پینٹاگون چین کے ساتھ ممکنہ جنگ کے لیے 12ہتھیاروں کو ترجیح دے رہا ہے جن میں پیٹریاٹ انٹرسیپٹر میزائل، لانگ رینج اینٹی شپ میزائل، اسٹینڈرڈ میزائل 6، پریسیژن اسٹرائیک میزائل اور جوائنٹ ایئر-سرفیس اسٹینڈ آف میزائل شامل ہیں۔ ان میں خاص طور پر پیٹریاٹ میزائل کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے کیونکہ لاک ہیڈ مارٹن عالمی طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
دستاویزات کے مطابق پینٹاگون نے کمپنیوں سے کہا کہ وہ 6، 18اور 24ماہ کے دوران پیداوار کو موجودہ سطح سے 2.5گنا بڑھانے کا منصوبہ پیش کریں۔ستمبر میں امریکی فوج نے لاک ہیڈ مارٹن کو تقریباً 10ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا ہے جس کے تحت وہ 2024سے 2026کے درمیان تقریباً 2ہزار پی اے سی-3میزائل تیار کرے گی، پینٹاگون چاہتا ہے کہ مستقبل میں ہر سال اتنے ہی پیٹریاٹ میزائل تیار کیے جائیں جو موجودہ پیداوار سے تقریباً چار گنا زیادہ ہیں۔