مقبوضہ بیت المقدس (نیوزڈیسک)اسرائیل میں فرانسیسی سفیر پیٹرک میزینیو کو اسرائیلی دفتر خارجہ’طلب کیا گیا ہے۔ یاد رہے طلبی کا نوٹس فرانس کی جانب سے القدس میں بین الاقوامی معائنہ کاروں کی تعیناتی کی تجویز کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ فرانسیسی سفیر کو دفتر خارجہ ‘طلب’ کیا گیا ہے، تاہم طلبی کی وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔دوسری جانب فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ تل ابیب میں ان کے سفیر اسرائیلی وزارت خارجہ جائیں گے اور وہاں یورپی اور یو این کے عہدیداروں سے ملاقات کریں گے۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں فرانس کی جانب سے القدس میں بین الاقوامی معائنہ کار تعنیات کرنے کی تجویز پر کڑی تنقید کی تھی۔ بیان کے مطابق فرانس فلسطینیوں کی جانب سے شروع کردہ دہشت گردی پر اسے انعام دینا چاہتا ہے۔یاد رہے کہ وزارت عظمی کے علاوہ بنجمن نیتن یاہو کے پاس کابینہ میں وزارت خارجہ کا قلمدان بھی ہے، اسی لئے وہ خارجہ امور پر براہ راست بیان بازی میں کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔درایں اثنا اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ ان کا ملک یو این سیکیورٹی کونسل میں فرانس کی پیش کردہ تجویز مسترد کرتا ہے کیونکہ اس میں فلسطینیوں کو تشدد کی طرف مائل کرنے کا سرے ہی ذکر ہی نہیں ملتا۔اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی امن فوجی دستوں کی حرم قدسی میں تعیناتی سے فلسطینیوں کی “دہشت گردی” اور انتہا پسندی پر اکسانے کی سازشوں کو نہیں روکا جا سکتا۔نیتن یاھو کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے موجودہ اسٹیٹس کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی آئندہ ایسا کوئی امکان ہے تاہم تخریب کار عناصر مساجد میں دھماکہ خیز مواد لانے اور یہودیوں پر حملوں کے ذریعے خود ہی اس کا اسٹیٹس تبدیل کر رہے ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت شدت پسندی پر اکسانے کی فلسطینی تحریک کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے خاص طور پر شمالی اسرائیل میں سرگرم اسلامی تحریک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ “ہم منظم دہشت گردی کی تحریک” کا سامنا کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ اسرائیل نے حال ہی میںبیت المقدس میں پولیس کی معاونت کے لیے 300 فوجی اہلکار بھی تعینات کیے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی بیت المقدس میں تعیناتی کا اقدام غیر معمولی ہے۔ 2000ءمیں شروع ہونے والی دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران بھی یروشلم میں اسرائیلی فوجی تعینات نہیں کیے گئے۔اسرائیلی حکومتیں بیت المقدس کو پولیس ہی کے ذریعے کنٹرول کرتی رہی ہے تاہم پہلی بار بیت المقدس میں بڑی تعداد میں فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ اسرائیل کے اس اقدام سےیہ مترشح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست مشرقی بیت المقدس کو متنازع علاقہ تسلیم کرنے کے بجائے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے