کراچی(نیوزڈیسک)پاکستانی حکومت ایک سابق جنرل کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر رہی ہے جس سے سکیورٹی کے معاملات اور حریف بھارت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے میں فوج کی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ اس وقت سرتاج عزیز کے پاس ہے جووزیراعظم نواز شریف کے قریبی اور دیرینہ ساتھی ہیں، ان کے پاس خارجہ امور کا قلمدان بھی ہے اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل نصیر خان جنجوعہ کو مقرر کیا جا رہا ہے جو اسی ہفتے فوج سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں فوجی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرمی چیف محسوس کر رہے تھے کہ سرتاج عزیز کی توجہ منقسم ہے اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جنرل (ر)کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا جائے گا جس سے سرتاج عزیز اپنی پوری طرف دفتر خارجہ پر مرکوز کر سکیں گے تاہم اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ وزیراعظم آرمی چیف کا حکم تسلیم کر رہے ہیں یا فوج ان پر دبا ڈال رہی ہے بلکہ یہ دونوں فریقین کا مشترکہ فیصلہ ہے۔فوج کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے فوج کے تعلقات تنا کا شکار رہے ہیں جس نے 1999میں انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔وہ دوبارہ 2013میں اس عزم کا اظہار کر کے اقتدار میں آئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنائیں گے۔ جوہری صلاحیت کے حامل دونوں حریف ممالک میں 1947ء میں علیٰحدگی کے بعد تین جنگیں ہو چکی ہیں۔نواز شریف اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ارادوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے اور فوج میں کئی عناصر بھارت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے۔پاکستان کے اندر ہونے والی احتجاج کی سیاست نے بھی نواز شریف کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کیلئے فوج پر زیادہ انحصار کریں اور اس صورتحال کو مزید تقویت امر سے بھی پہنچی کہ بھارت میں سخت گیر مؤقف کے حامل نریندر مودی اقتدار میں آ گئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نے نوازشریف کو مشورہ دیا کہ مودی سے گریز کی حکمت عملی اختیار کی جائے مگر نوازشریف بضد رہے کہ وہ امن بات چیت کا راستہ اختیار کریں گے تاہم وہ مودی کے ردعمل سے بہت دل گرفتہ ہو گئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ غالباً انہیں اس وقت فوج کی طرف سے دیا جانے والا مشورہ زیادہ بہتر تھا۔ نوازشریف کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل جنجوعہ کی تقرری کے بارے میں کئی ماہ سے زور دے رہے تھے لیکن نوازشریف کی ترجیح تھی کہ اس عہدے پر ان کا اپنا آدمی ہی رہے تاہم اب آرمی چیف نے نوازشریف کو قائل کر لیا ہے کہ فوج اور حکومت کو مل کر کام کرنا چاہیے۔جنرل جنجوعہ کی تعیناتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں مزید سرد مہری کا عنصر غالب ہوتا نظر آ رہا ہے جن کے درمیان اگست میں مذاکرات ہونے تھے مگر انہیں اس وقت منسوخ کر دیا گیا جب بھارت بضد تھا کہ مذاکرات صرف بھارتی علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستانی معاونت کے موضوع تک ہی محدود رکھے جائیں جبکہ پاکستان کی خواہش تھی کہ مذاکرات ہمہ جہت ہونے چاہئیں۔فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل جنجوعہ بات چیت کیلئے افغانستان جائیں گے، وہ امریکا بھی جائیں گے اور جب پاکستان اور بھارت کے درمیان قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر بات چیت کا سلسلہ بحال ہو گا تو جنرل جنجوعہ ہی پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ایک اعلی حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ جنرل جنجوعہ بلوچستان میں اپنی تعیناتی کی وجہ سے قابل احترام مقام کے حامل ہیں۔قبل ازیں جنرل جنجوعہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر تھے جو اعلی فوجی تعلیمی ادارہ ہے اور قومی سلامتی کے امور میں تھنک ٹینک کا کردار ادا کرتا ہے۔اس کے علاوہ وہ فوجی مشق عزم نو پر بھی کام کرتے رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد بھارت کے حوالے سے فوجی اہلیت میں اضافہ ہے۔واضح رہے کہ اطلاعات کے مطابق جنرل جنجوعہ نے نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا میں ان کے ساتھ جانا تھا مگر تاحال یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ وہ ان کے ساتھ گئے ہیں یا نہیں