جمعرات‬‮ ، 21 اگست‬‮ 2025 

خوشی کا پہلا میوزیم

datetime 21  اگست‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے تھا‘ یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ میں پڑھاتا تھا اور اس نے 1977ء میں انسانی اعضاء کو محفوظ بنانے کی نئی تکنیک ایجاد کی‘ اس عمل کو پلاسٹنیشن(Plastination)کہتے ہیں‘ اس عمل میں انسانی جسم کو مختلف پرتوں میں کاٹ کر اس طرح محفوظ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے چھوٹے سے چھوٹے خلیے کو بھی کھلی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں‘

یہ میڈیکل سائنس میں بڑا بریک تھا‘ اس کے ذریعے میڈیکل کے طالب علموں کو انسانی جسم کی ساخت (اناٹومی) آسانی سے سمجھائی جا سکتی تھی‘ ڈاکٹر گونتھر نے بعدازاں ایمسٹرڈیم میں ’’باڈی ورلڈ‘‘ کے نام سے میوزیم بنا دیا‘مجھے 18 جولائی کو یہ میوزیم دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میری دوسری بیٹی میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے‘ میں اسے بھی ساتھ لے گیا‘ میوزیم سات منزلہ ہے اور اس میں دو سو لاشوں کے اعضاء محفوظ ہیں‘ میوزیم کے گیٹ پر بورڈ لگا ہے یہ تمام جسم ہمیں والنٹیئرز نے ڈونیٹ کیے ہیں‘یہ ڈونرزکا انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے‘ ہم آج ان کی وجہ سے انسانی جسم کو بہتر انداز سے سمجھ پارہے ہیں‘ خوشی ڈاکٹر گونتھر کی زندگی کا بڑا چیلنج تھا‘ وہ پوری زندگی خوشی کی وجوہات تلاش کرتا رہا لہٰذا اس نے اس میوزیم کا دوسرا نام خوشی کی تلاش رکھ دیا‘ ڈاکٹر نے میوزیم میں خوشی کے تمام عناصر ڈسکس کیے‘ یہ میوزیم بہر حال غیرروایتی اور دل چسپ تھا۔

عمارت کے مختلف لیولز پر انسانی زندگی کے مختلف درجے اور مختلف اعضاء کے مختلف فنکشنز ہیں‘ پہلے ہال میں انسان کا دماغ اور نروس سسٹم ہے‘ آپ ڈاکٹر کا کمال دیکھیں‘ اس نے انسانی جسم کے تمام نروز ریڑھ کی ہڈی سمیت خشک کر کے اس پر پلاسٹک کی تہہ چڑھا کر فرش پر کھڑے کر دیے ہیں‘ آپ اپنی آنکھوں سے سر سے لے کر پائوں کے ناخن تک انسان کے تمام نروز دیکھ سکتے ہیں‘ اس کے بعد انسانی جسم کا ایک ایک فنکشن کھلتا جاتا ہے‘ ہم اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے کیسے ہیں‘ ہم چیزیں کیسے پکڑتے ہیں‘ خون کیسے بنتا ہے اور دل اسے صاف کر کے جسم کے مختلف حصوں میں کیسے بھجواتا ہے‘ ہاضمے کا کیا نظام ہے‘ دل کے دورے کیوں پڑتے ہیں‘ انسانی جوڑ کیسے کام کرتے ہیں اور یہ خراب کیوں ہوتے ہیں‘ انسان کو درد کیوں ہوتا ہے اور اس سے نجات کیسے ہو سکتی ہے؟ انسانی یادداشت کے کیا کیا حصے ہیں اور انہیں کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے‘ انسان اپنا توازن کیسے برقرار رکھتا ہے‘ ہم تاش کیوں اور کس طرح کھیلتے ہیں‘ میوزک کا انسان کی نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہے‘ ہم ہنستے ہیں تو جسم کے اندر کیا تبدیلیاں آتی ہیں‘ ایکسرسائز کے دوران ہمارے دماغ میں کیا بدلتا ہے؟ہم جب چیزوں کو کھینچتے یا گھماتے ہیں تو جسم کے کون کون سے عضلات کام آتے ہیں‘ ڈانس کا انسانی جسم پر کیا اثر ہوتا ہے‘ ہم میں گم ہو جانے کا اندیشہ کیوں پیدا ہوتا ہے‘

ہمارے بازو میں کتنے نروز اور عضلات ہیں‘ ٹانگوں اور ہاتھوں کی جلد میں کیا فرق ہے‘ جلد کے کس کس مسام میں خون جاتا ہے اور کیا کیا تبدیلی لاتا ہے اور بلڈ پریشر کیوں اور کیسے ہوتا ہے اور اسے کنٹرول کیسے کیا جا سکتا ہے‘ مجھے اس میوزیم میں جا کر پتا چلا پتے اور مثانے میں کینسر کی بڑی وجہ سگریٹ نوشی ہے‘ پھیپھڑوں کے کینسر کے بعد یہ سگریٹ نوشوں میں دوسرا بڑا کینسر ہے اور اس کی وجہ تمباکو ہے‘ تمباکو کے کیمیکل خون سے ہوتے ہوئے جب پتے اور مثانے میں جاتے ہیں تو یہ وہاں کینسر پیدا کر دیتے ہیں‘ ڈاکٹر گونتھر نے یہ انکشاف 1980ء کی دہائی میں کیا تھا‘ میوزیم میں منہ سے لے کر مقعد تک ہاضمے کا سارا نظام بھی ہے اور ہاضمے کے یہ سارے اعضاء اصل تھے‘ مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا خوشی کا براہ راست تعلق بڑی آنت سے ہے‘ خوشی اور کام یابی کا کیمیکل سیروٹونین (Serotonin) 97 فصد بڑی آنت میں پیدا ہوتا ہے اور اگر آپ کا بائول (Bowl) ٹھیک کام نہیں کر رہا‘ آپ قبض یا ڈائریا کے شکار ہیں تو آپ خوش نہیں رہ سکیں گے لہٰذا اگر خوش رہنا چاہتے ہیں تو واش روم کا سسٹم ٹھیک رکھیں‘ یہ بھی پتا چلا ہم جو کھاتے ہیں ہم وہ بن جاتے ہیں‘ ہمیں صحت مند رہنے کے لیے 40 قسم کی خوراکیں چاہییں اور کوئی ایک غذا یہ سارے اجزاء پورے نہیں کر سکتی لہٰذا ہمیں ایسی خوراک لینی چاہیے جس میں فروٹ‘ سبزیاں‘ زیتون کا تیل‘ ہول گرین (Whole grain)‘ گوشت اور مچھلی ہو‘ میوزیم میں باقاعدہ عملی طور پر دکھایا گیا جدید دور کی تین خوراکوں نے انسان کو کیسے برباد کیا‘ یہ چینی‘ نمک اور پراسیسڈ غذائیں ہیں‘ شوگر‘ دل کے امراض‘ ہارٹ اٹیک‘ بلڈ پریشر‘ کینسر اور موٹاپا ان خراب غذائوں سے منسلک ہے۔

میوزیم میں یہ بھی پتا چلا خوشی کا تعلق اچیومنٹس (کام یابی) سے ہوتا ہے‘ آپ جب کوئی ٹارگٹ پورا کر لیتے ہیں تو آپ کو خوشی ملتی ہے‘ آپ خوش ہونا چاہتے ہیں تو روزانہ کے ٹارگٹ اچیو کیا کریں‘ آپ کو خوشی مل جائے گی تاہم آپ کے ٹارگٹس مثبت ہونے چاہییں کیوں کہ منفی ٹارگٹ کے بعد انسان گلٹ (احساس گناہ) کا شکار ہو جاتا ہے اور گلٹ خوشی کو نگل جاتا ہے‘یہ بڑی دیر تک انسان کے ذہن میں بھی رہتا ہے‘ میوزیم میں دعویٰ کیا گیافخر‘ شکر اور قہقہہ انسان کے اندر خوشی پیدا کرتے ہیں اور ان کا اثر بڑی دیر تک قائم رہتا ہے‘ ڈاکٹر گونتھر کا دعویٰ تھا آپ اگر فخر‘ شکر اور قہقہے کو روزانہ تین مرتبہ دہرا لیں تو آپ خوش رہنا سیکھ جائیں گے‘ ڈاکٹر نے انکشاف کیا سٹریس انسان کا دشمن کے بجائے محسن ہے‘ ہم جب سٹریس میں آتے ہیں تو پورا جسم الرٹ ہو جاتا ہے‘ اس میں انرجی آ جاتی ہے‘ سٹریس انسان کی یادداشت بھی بڑھاتا ہے‘ اس کے دفاعی نظام کو بھی بہتر بناتا ہے‘ مشکلوں سے نکلنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے لہٰذا دنیا کے تمام کام یاب لوگ زندگی میں کبھی نہ کبھی سٹریس کے خوف ناک فیز سے گزرتے ہیں اگر آپ کو سٹریس نہیں ہوگا تو پھر آپ کی زندگی میں کوئی موٹی ویشن نہیں ہو گی‘

آپ کی زندگی بور‘ سست اور ڈپریشن سے بھرپور ہو گی‘ ڈاکٹر گونتھر کے مطابق قدرت نے انسان کے کام یابیاں سمیٹنے کے سسٹم میں بریک نہیں لگائی چناں چہ یہ جب کسی دنیاوی کام یابی کی طرف دوڑتا ہے تو پھر دوڑتا ہی چلا جاتا ہے‘ یہ رک نہیں پاتا اور یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے لہٰذا انسان کو آگے بڑھنے سے قبل سب سے پہلے بس (Enough) کا فیصلہ کرنا چاہیے‘ آپ جس دن یہ فیصلہ کر لیتے ہیں اس دن آپ خوشی کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں‘ ڈاکٹر گونتھر کی ریسرچ کے مطابق انسان کے اندر خوشی کے عناصر اچیومنٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور اچیومنٹ کسی نہ کسی ریوارڈ (Reward) سے منسلک ہوتی ہے‘ آپ ریس جیتتے ہیں تو آپ کو میڈل یا کیش پرائز ملتا ہے‘ یہ آپ کا ریوارڈ ہے‘ یہ جب تک آپ کو ملتا رہے گا آپ اس وقت تک بھاگتے رہیں گے کیوں کہ ریوارڈ آپ کے دماغ میں خوشی اور فخر کے کیمیکل پیدا کرتا ہے‘ خوشی اور فخر کے یہ کیمیکل انسان کو شراب‘ سگریٹ‘ چرس‘ ہیروئن اور ڈرگز سے بھی ملتے ہیں‘ ڈرگز کے کیمیکل اصل کیمیکل سے دس گنا ہوتے ہیں چناں چہ زیادہ تر لوگ اصل کام یابی کی بجائے ڈرگز کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیوں کہ انہیں شروع میں اس میں خوشی اور فخر ملتا ہے اور چند ہفتوں کے بعد اگلی خوراک یا زیادہ سے زیادہ خوراک ان کا ریوارڈ بن جاتی ہے اور یوں یہ گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں‘ ڈاکٹر گونتھر کے مطابق ہماری زندگی ریوارڈز کے گرد گھومتی ہے‘ ہم اگر یہ قدرتی طریقے سے حاصل کر لیں تو ہم دنیا میں کام یاب ہو جاتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہم ذلیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر گونتھر نے انکشاف کیا خوشی کے پچاس فیصد حصے کا انحصار ہمارے ڈی این اے پر ہے‘ ہم میں سے کچھ لوگ خوشی کے ڈی این اے کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ‘ انہیں خوش ہونے کے لیے کسی اضافی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی‘ خوشی کا چالیس فیصد حصہ ہماری سوچوں سے جنم لیتا ہے‘ ہم زندگی کو کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں اور ہماری دماغی صورت حال کیا ہے‘ یہ سب مل کر ہماری خوشی کا فیصلہ کرتی ہیں جب کہ ہماری خوشی میں حالات کا تعلق صرف 10فیصدہوتا ہے‘ مہنگائی میں کمی‘ خوش گوار موسم‘ اچھے دوست‘ اچھی حکومت‘ موٹی ویشنل تقریب‘ ملک میں امن اور اچھی فلموں کا ہماری خوشی میںصرف دس فیصد حصہ ہوتا ہے لہٰذا جن لوگوں کی سوچ مثبت ہوتی ہے یاوہ خوشی کا ڈی این اے لے کر پیدا ہوتے ہیں وہ جنگوں سیلابوں‘ جنگلوں‘ وبائوں‘ بے روزگاری اور انتہائی درجے کی مہنگائی میں بھی خوش رہتے ہیں‘ ان پر بیرونی حالات اثر نہیں کرتے‘ اس کا دعویٰ تھا ہم اپنا ڈی این اے نہیں بدل سکتے اگر قدرت نے ہمیں غمگین ڈی این اے دے کر دنیا میں بھیجا ہے تو ہم کسی بھی موسم اور کسی بھی کام یابی کے بعد خوش نہیں ہو سکیں گے تاہم انسان اپنے دماغ پر کام کر کے خود کو چالیس فیصد تک خوش رکھ سکتا ہے ‘ قدرت کے اس راز سے زیادہ تر اداس اور غم زدہ لوگ واقف نہیں ہیں چناں چہ یہ دماغ کو گھٹن میں دھکیل کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دیتے ہیں اور ساغر صدیقی بن کر46سال کی عمر میں فٹ پاتھ پر فوت ہو جاتے ہیں یا سعادت حسن منٹو کی طرح خود کو شراب میں ڈبوکر صرف 43سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں‘ کاش سعادت حسن منٹو اور ساغر صدیقی ڈاکٹر گونتھر سے ملے ہوتے یا انہوں نے یہ میوزیم دیکھا ہوتا تو شاید آج ان کی کہانی مختلف ہوتی‘ بہرحال یہ میوزیم کمال ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…