اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسپین کے ماہرین آثار قدیمہ نے ایک حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاکھوں سال قبل ابتدائی انسان اپنی ہی نسل کے بچوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ دعویٰ شمالی اسپین کی گران ڈولینا نامی غار میں کی گئی ایک حالیہ کھدائی کے دوران سامنے آیا، جہاں ایک دو سے چار سالہ بچے کی گردن کی ہڈی دریافت ہوئی ہے۔
Catalan Institute of Human Paleoecology and Social Evolution (IPHES) سے وابستہ ماہرین کے مطابق، اس ہڈی پر واضح طور پر تیز دھار ہتھیار سے کاٹے جانے کے نشانات موجود ہیں، جو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بچے کو جان بوجھ کر ذبح کیا گیا تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ بچہ اُن قدیم انسانوں کی نسل سے تھا جو موجودہ انسانی نسل کے ابتدائی آبا و اجداد سمجھے جاتے ہیں۔ ہڈی پر پائے جانے والے نشانات اس بات کے براہِ راست ثبوت ہیں کہ بچے کو شکار کی مانند کاٹا اور ممکنہ طور پر کھایا گیا۔
اگرچہ ماضی میں انسانوں کی جانب سے آدم خوری (Cannibalism) کے شواہد ملے ہیں، لیکن کسی بچے کو اس انداز میں نشانہ بنانے کی مثال نہایت کم اور غیر معمولی ہے۔ اگر اس نئی دریافت کی مزید توثیق ہو جاتی ہے تو یہ دنیا میں بچوں کی آدم خوری کا سب سے قدیم واقعہ قرار پائے گا۔
ماہرین کے مطابق یہ انسان 8 سے 12 لاکھ سال پہلے زمین پر موجود تھے۔ ان کا جسمانی قد چھوٹا، ساخت مضبوط جبکہ دماغ کا سائز موجودہ انسانوں کی نسبت کم تھا۔
تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ یہ دریافت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ قدیم انسان خوراک کی کمی یا دیگر وجوہات کی بنا پر اپنی ہی نسل کے افراد کو کھانے پر مجبور تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہر نئی کھوج ہمیں ابتدائی انسانی زندگی، ان کے طرزِ عمل اور مرنے والوں سے متعلق ان کے رویے کو ازسرِ نو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
یہ حیران کن دریافت نہ صرف انسان کی تاریخی نفسیات اور معاشرتی رویوں پر روشنی ڈالتی ہے، بلکہ انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار میں جینے اور بقا کے لیے اختیار کیے گئے انتہائی اقدامات کو بھی آشکار کرتی ہے۔