اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حالیہ جغرافیائی کشیدگی کے پیش نظر اپنے ممکنہ جانشینوں کے حوالے سے اہم فیصلہ کر لیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے تین ممتاز علما کے نام جانشینی کے لیے تجویز کیے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ غیر معمولی قدم اسرائیل کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں اٹھایا گیا، کیونکہ ایرانی قیادت کو خدشہ ہے کہ اسرائیل یا امریکا ان پر قاتلانہ حملے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان ممکنہ جانشینوں میں آیت اللہ خامنہ ای کے صاحبزادے مجتبیٰ خامنہ ای کا نام شامل نہیں ہے، حالانکہ انہیں ماضی میں ایک مضبوط امیدوار سمجھا جاتا رہا ہے۔ مجتبیٰ کو پاسداران انقلاب کے قریب سمجھا جاتا ہے اور وہ دینی تعلیم میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی ایک متوقع جانشین تھے، لیکن وہ گزشتہ سال ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اخبار کے مطابق 86 سالہ آیت اللہ خامنہ ای، جو گزشتہ 36 برسوں سے ایران کے سپریم لیڈر کے منصب پر فائز ہیں، نے حالیہ دنوں میں الیکٹرانک رابطے ترک کر دیے ہیں اور اب صرف ایک قابل اعتماد مشیر کے ذریعے پیغامات پہنچاتے ہیں۔
مزید برآں، سیکیورٹی خدشات کے باعث ایرانی وزارت اطلاعات نے سینئر حکام اور فوجی افسران کو موبائل فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات کے استعمال سے روک دیا ہے۔
ابھی تک ایرانی حکومت یا سپریم لیڈر کے دفتر کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی باقاعدہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ملک کی مسلح افواج کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ پر بھی بالا دستی حاصل ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا جانتا ہے کہ خامنہ ای کہاں موجود ہیں اور وہ “ایک آسان ہدف” ہیں، لیکن ہم فی الحال ان پر حملہ نہیں کر رہے۔
اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی سامنے آ چکا ہے کہ اسرائیل نے آیت اللہ خامنہ ای کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی، تاہم امریکا نے اس اقدام کو روک دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ خامنہ ای کی ہلاکت جنگ کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بنے گی بلکہ اسے ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
اگر آپ اس خبر کا خلاصہ، سوشل میڈیا پوسٹ یا تجزیاتی نوٹ بھی چاہتے ہیں تو ضرور بتائیں۔