کراچی.(نیوزڈیسک)امریکی صدر براک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں رہے گی۔امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے منصوبے میں تبدیلی کیوں ہوئی؟ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امریکی فوج جہاں جاتی ہے وہاں سے واپس نہیں جایا کرتی۔رہی بات افغانستان کی تووسطی ایشیا میں اس کی ایک اسٹریٹیجک حیثیت ہے۔ روزنامہ جنگ کے صحافی فاضل جمیلی کے مطابق امریکا نے وہاں اربوں ڈالر اس لیے نہیں خرچ کیے کہ ایک دم بوریا بستر سمیٹ کر چلا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ افغانستان مختلف قسم کی معدنیات سے بھی مالامال ہےاور امریکا کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ یہ معدنیات چین ، روس یا بھارت کے ہاتھ میں چلے جائیں۔افغانستان1900ء کا کیوبا اور1920ء کا نکاراگوا بھی ثابت نہیں ہوا۔اگرواشنگٹن کے بس میں ہوا تو امریکی فوجیں کبھی یہاں سے واپس نہیں جائیں گی۔کچھ اور ملکوں کے مثالیں سامنے ہیں جہاں سے امریکی فوجیں واپس نہیں گئیں۔جرمنی کو 1945ء میں ’’آزاد‘‘ کرانے کے بعد70 سال ہوگئے، امریکی فوج آج تک وہاں موجود ہے۔امن معاہدہ پر آج تک دستخط نہیں ہوئے اور امریکا جو چاہتا ہے جرمنی کو اس بات ماننی پڑتی ہے۔یہاں تک کہ جب کوئی نیا چانسلر منتخب ہوتا ہے اسے واشنگٹن جاکر امریکی صدر سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا ہے۔جرمنی کی طرح جاپان میں بھی امریکی فوجیں 70سال سے موجود ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کئی ایک چھوٹے ممالک بھی ہیں جہاں امریکی فوجیں مستقل بنیادوں پر تعنیات ہیں۔کوسوو میں کیمپ بونڈاسٹیل دنیا میں امریکا کی سب سے بڑی فوجی تنصیبات سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح یونان، اسپین ، اٹلی ، فلپائن اور درجنوں دوسرے ممالک بھی جہاں امریکا کی حفاظتی چھتری موجود ہے۔تاہم معدودے چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سے امریکی فوجوں کو واپس جانا پڑا لیکن ان کے نام کے ساتھ ’’امریکا مخالف‘‘ ہونے کالاحقہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چسپاں کر دیا گیا،کیوبا اس کی پہلی مثال ہے۔ 1902ء سے 1958ء تک کیوبا کو افغانستان کی طرح چلایا جارہا تھا لیکن 1958ء میں فیڈل کاسترو نے امریکی فوجوں کو دیس نکالا دے دیا۔ورنہ اس سے پہلے کیوبا میں جو بھی حکومت میں آنا چاہتا تھا اس کی منظوری امریکی سفارتخانہ دیتاتھا۔جسے 4جولائی کے استقبالیے میں مدعو نہ کیا جائے اس پر سیاست کے دروازے بند ہو جاتے تھے۔ویت نام سے بھی 50ہزارفوجیوں کی ہلاکتوں کے بعد امریکا کو واپس جانا پڑا تھا لیکن اس جنگ میں لاکھوں ویت نامی بھی مارے گئے۔امریکا کے ’’حفاظتی ‘‘ حصار سے نکلنا اگرچہ مشکل کام ہے لیکن جن رہنمائوں نے یہ کارنامہ انجام دیا انہیں کبھی معافی نہیں مل سکی۔
1969ء میں کرنل قذافی نےلیبیامیں شاہ ادریس کا تختہ الٹنے کے بعد امریکی اڈا بند کردیا تھا۔کرنل قذافی کا کیا حشر ہوا ، سب کے سامنے ہے۔ایران کو معاف نہ کیے جانے کی بھی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس نے بھی 1979ء میں امریکا کو دیس نکالا دیا تھا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی فوجیں مستقل بنیادوں پر افغانستان میں رہیں گی اور افغانستان میں جو بھی حکومت آئے گی۔ اپنے ملک سے امریکی فوج کے انخلاء کی جرأتِ رندانہ نہیں کر سکے گی۔
امریکی فوج جانے کےلیے نہیں آتی
18
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں