اسلام آباد(این این آئی)مشہور پاکستانی کوہ پیما سرباز خان نے نیپال میں واقع دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی مانٹ کنچن جنگا (8586 میٹر)کو کامیابی سے سر کر لیا، اس کامیابی کے ساتھ ہی وہ دنیا کی 8000میٹر سے بلند 14پہاڑی چوٹیوں کو آکسیجن کی مدد کے بغیر سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔سرباز خان نے اتوار کی صبح بغیر اضافی آکسیجن کے نیپال میں واقع دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی مانٹ کنچن جنگا (8586 میٹر)کو سر کیا، دنیا کی تمام 14آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑی چوٹیوں کو آکسیجن کی مدد کے بغیر سر کرنے کا کارنامہ چند ہی کوہ پیماں نے سر انجام دیا ہے۔سرباز خان اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر میں دنیا کے 8000 میٹر سے بلند تمام 14 پہاڑوں کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما بن چکے تھے۔
سرباز کے ٹور آرگنائزر، امیجن نیپال نے ایک بیان میں کوہ پیما کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان سیاپنے عزیز دوست، کلائنٹ، اور شراکت دار سرباز خان کو صبح 18مئی 2025 کو بغیر اضافی آکسیجن کے دنیا کے تیسرے بلند ترین پہاڑ کنچن جنگا (8586 میٹر)کو سر کرنے کی ان کی ناقابل یقین کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اس بارے میں الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری نے کہاکہ اس چوٹی کو سر کرنے کے ساتھ ہی، سرباز خان بغیر آکسیجن کے تمام 14 بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے ہیںانہوں نے مزید کہاکہ سرباز خان نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے، بغیر آکسیجن کے تمام 14 آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں کو سر کرنا ایک نادر اور بہادرانہ کارنامہ ہے، وہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر پاکستانی عزم، مہارت اور حوصلے کی علامت ہیں۔سرباز نے اتوار کی صبح پاکستانی وقت کے مطابق 4:15 بجے مانٹ کنچن جنگا کو کامیابی سے سر کر کے کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک سنگ میل عبور کیا۔اس کارنامے کو جو چیز غیر معمولی بناتی ہے وہ یہ ہے کہ سرباز نے بغیر کسی اضافی آکسیجن کے دنیا کے تیسرے بلند ترین پہاڑ کو سر کیا ،جو پاکستان کے کوہ پیمائی کے ورثے میں ایک یادگار لمحہ ہے۔اس تاریخی سنگ میل تک سرباز کا سفر ایک دہائی سے زیادہ کے عزم، نظم و ضبط اور خالص حوصلے پر محیط ہے، انہوں نے آکسیجن سلنڈر کے بغیر 8000 میٹر سے بلند درج ذیل 14 چوٹیوں کو کامیابی سے سر کیا۔مانٹ کنچن جنگا کی چوٹی سر کرنا نہ صرف سرباز خان کو تاریخ کے عظیم ترین کوہ پیماں میں شامل کرتا ہے بلکہ اس سے پاکستان کے عوام اور خاص طور پر گلگت بلتستان کی کوہ پیمائی کی برادری کو بے حد فخر محسوس ہوتا ہے، جہاں سے سرباز کا تعلق ہے۔
انہوں نے یہ کامیابی خالص الپائن کوہ پیمائی کے جذبے، یعنی کم سے کم ساز و سامان، شرپاں کی طرف سے لگائی گئی کوئی مقررہ رسیاں یا کیمپ نہیں، اور آکسیجن سلنڈر کا سہارا لیے بغیر، حاصل کی، یہ ایک ایسا انداز ہے جو کوہ پیمائی کی حقیقی اور مشکل ترین شکل کی نمائندگی کرتا ہے۔سرباز کا مشن ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ دنیا کے بلند ترین مقامات پر پاکستان کی نمائندگی کریں اور اگلی نسل کے کوہ پیماں کو اسی جذبے اور استقامت کے ساتھ اپنے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دیں۔35 سالہ سرباز کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے علاقے علی آباد سے ہے اور انہوں نے 2016 میں اپنے کوہ پیمائی کے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ان میں سے چار مہمات میں، ان کے ہمراہ مرحوم محمد علی سدپارہ بھی تھے۔گزشتہ سال دھولاگیری چوٹی سر کرنے کے مشن پر روانہ ہونے سے قبل انہوں نے کہا تھا: میں اس مہم کا منتظر ہوں اور اپنے مرشد علی سدپارہ کے خواب کے قریب پہنچ رہا ہوں، جن کا بھی 14 بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا ایسا ہی خواب تھا، لیکن بدقسمتی سے اس سال کے اوائل میں کے ٹو پر موسم سرما کی مہم کے دوران وہ جاں بحق ہوگئے ۔کوہ پیما نائلہ کیانی، ساجد سدپارہ، سول سوسائٹی کے ممبران اور سیاستدانوں سمیت پاکستانی کوہ پیماں نے سرباز کو ان کے تاریخی کارنامے پر مبارکباد پیش کی ہے۔