لندن(نیوز ڈیسک)لیبارٹری میں مصنوعی گوشت سے تیار کردہ دنیا کا پہلا برگر بنانے والی ڈچ ٹیم کا کہنا ہے کہ انھیں اْمید ہے کہ اْن کی یہ پراڈکٹ پانچ سالوں میں فروخت کے لیے پیش کردی جائے گی۔محققین برگر کو سستا اور مزیدار بنانے کے لیے ایک کمپنی قائم کرنے کے متعلق بھی سوچ رہے ہیں۔ٹیم نے دو سال قبل لندن میں نمونے کے طور پر برگر بنانے اور کھانے کا ایک تجربہ کیا۔ برگر بنانے پر 215,000 یورو کی لاگت آئی تھی۔میں اس پراڈکٹ کو فروخت کے لیے پیش کیے جانے کے موجود امکان سے متعلق انتہائی پْرجوش ہوں۔ اور میں پْریقین ہوں کہ جب اسے گوشت کے متبادل کے طور پر پیش کیا جائے گا تو لوگوں کے لیے یہ بہت مشکل ہوجائے گا کہ وہ ہماری اس پراڈکٹ کو اخلاقی وجوہات کی بنا پر خریدنے سے انکار کرسکیں،اس نئی فرم کے سربراہ نے ایک مذاکرے میں بی بی سی کو ٹیکنالوجی کو بنانے سے متعلق اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا۔لیبارٹری میں تیار کیے جانے والا یہ برگر پروفیسر مارک پوسٹ نے نیدر لینڈ کی ماسٹریٹ یونیورسٹی میں موجود اپنی لیبارٹری میں بنایا۔انھوں نے کہا کہ ’میں پْریقین ہوں کہ ہم اس برگر کو پانچ سالوں کے دوران مارکیٹ میں متعارف کرانے کے قابل ہوجائیں گے۔‘انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آغاز میں یہ خصوصی پراڈکٹ کے طور پر آرڈر دینے پر دستیاب ہوگا لیکن اس کی طلب میں اضافے اور اس کی قیمت میں کمی کے بعد اسے بڑی مارکیٹوں میں بھی فروخت کیا جائے گا۔یہ برگر سٹیم خلیوں سے بنایا گیا ہے۔ سٹیم خلیے وہ سانچے ہوتے ہیں جن کے ذریعے خصوصی بافتیں بنتی ہیں جیسے اعصابی اور جلدی خلیے اس سے بنتے ہیں۔بیشتر محققین جو اس سلسلے میں کام کررہے ہیں وہ پیوند کاری کے لیے انسانی بافتیں بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ضرررسیدہ یا بیمار پٹھوں، اعصابی خلیوں یا پھر نرم ہڈیوں کو تبدیل کیا جاسکے۔تاہم پروفیسر پوسٹ نے انھیں اپنے برگر کے لیے پٹھوں اور چربی بنانے کے لیے استعمال کیا۔اس عمل کا آغاز سٹیم خلیوں سے کیا گیا جو کہ گائے کے پٹھوں کی بافتوں سے نکالے گئے تھے۔ ایک لیبارٹری کے اندر انھیں غذا بخش ادویات اور پیداوار بڑھانے والی کیمیائی مرکبات کے ہمراہ مصنوعی طریقوں سے رکھا گیا تاکہ ان کی نشوونما تعداد بڑھانے میں مدد مل سکے۔ تین ہفتوں بعد وہاں پر دس لاکھ سے زائد سٹیم خلیے موجود تھے جنھیں چھوٹی ترین طشتریوں میں رکھا گیا جہاں انھیں پٹھوں کی تقریباً ایک سینٹی میٹر طویل اور کچھ ملی میٹر موٹی چھوٹی پٹیوں کی صورت میں یکجا کیا گیا۔اس کے بعد احتیاط سے ان پٹیوں کی ایک ساتھ تہیں لگائی گئیں ان پر رنگ کیا گیا اور انھیں چربی کے ساتھ ملایا گیا۔اس کے نتیجے میں جو برگر بنا اسے پکانے کے بعد دو سال قبل لندن میں ہونے والی ایک نیوز کانفرنس کے دوران کھایا گیا تھا۔ایک غذائی ماہر کا کہنا تھا کہ ’اس کا ذائقہ تقریباً گوشت جیسا ہی تھا لیکن اْتنا رسیلا نہیں تھا‘ جبکہ ایک دوسرے ماہر کے مطابق اس کا ذائقہ بالکل کسی اصلی برگر جیسا تھا۔
کمپنی جسے پروفیسر پوسٹ اور ماسٹریٹ یونیورسٹی نے بنایا ہے اس کا نام ’موسا میٹ‘ رکھا گیا ہے۔ کمپنی اپنی لیبارٹری میں قیمہ کیا ہوا گوشت تیار کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے جس کا ذائقہ اصلی گوشت جیسا ہوگا اور قیمت بھی اْتنی ہی ہوگی۔پروفیسر پوسٹ اور اْن کی ٹیم کو گذشتہ دو سالوں کے دوران کافی مقبولیت ملی ہے لیکن پانچ سال تک ایک تجارتی مصنوعہ تیار کرنے کے لیے انھوں نے اپنی تحقیق میں مزید تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔موسا میٹ کمپنی اپنے پاس 25 سے زائد سائنسدانوں، لیبارٹری کے تکنیکی ماہرین اور منتظمین کو ملازمتیں فراہم کرے گی۔ اس کے اہم مقاصد میں سے ایک بڑے پیمانے پر گوشت کی پیداوار بڑھانے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔محققین تھری ڈی کی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے گوشت کے قتلے بنانے کے طریقوں پر بھی تحقیق کریں گے۔ لیکن امکان ہے کہ اسے تجارتی مقاصد کے لیے پیش کرنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔
ڈچ سائنسدانوں نے مصنوعی گوشت تیار کر لیا
16
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں