لاہور (نیوزڈیسک) سابق صدر مملکت محمد رفیق تارڑ نے کہا ہے کہ 12اکتوبر 1999ءکو پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کا تختہ الٹنے کے بعد مجبوری کے عالم میں صدر کے منصب پر رہا ،میرے ذہن میں یہ بھی خیال تھا کہ اگر خدانخواستہ مشرف کی طرف سے بنائے گئے مقدمات میں نواز شریف کو انتہا کی سزا ہو گئی تو میرے سے جو ہو سکا میں وہ کروں گا ، سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق میں نے استعفیٰ دیا نہ میری بطور صدر مدت پوری ہوئی اس لحاظ سے آصف علی زرداری کے صدر کا حلف اٹھانے تک میں صدر تھا ۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق صدر مملکت رفیق تارڑ نے کہا کہ 12اکتوبر کو نواز شریف میرے پاس آئے اور مجھے ایک کاغذ دیا گیا تھا جس میں مشر ف کو ہٹانے کا فیصلہ تھا اور یہ رسمی طور پر صدر کو دکھایا گیا اور میں نے نیچے لکھ دیا ۔ کیونکہ آئینی طور پر یہ وزیر اعظم کا اختیار تھا اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ابھی نواز شریف وہاں سے گئے ہی تھے کہ حالات خراب ہونے کی خبریں آنا شروع ہو گئیں اور جب میں نے نواز شریف سے ٹیلیفون کر کے ان خبروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہاکہ وہ (فوج )وزیر اعظم ہاﺅس میں آ گئے ہیں اور پھر لائن ڈراپ ہو گئی ۔نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد میں ایک منٹ کےلئے بھی صدر کے عہدے پر نہیں رہنا چاہتا تھا ۔میں نے اپنے بیٹے کو نواز شریف کے والد کے پاس بھیجا اور اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ۔رات کے وقت مجھے پرویز مشرف کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ میں اسلام آبا د آرہا ہوں اور آپ سے علی الصبح ملاقات کے لئے آﺅں گا اور اور آپ کام جاری رکھیں جس پر میں نے کہا کہ میں کام جاری رکھوں گا یا استعفیٰ دیدوں گا اس بارے میں تین روز میں دوستوں سے مشاورت کرکے بتا دوں گا ۔ میاں محمد شریف مرحوم نے کہا کہ آپ نے صدر کا آفس کسی حال میں نہیں چھوڑنا کیونکہ آ پ کی اشد ضرورت ہے۔ جب پرویز مشرف نے مجھ سے ملاقات کی تو میں نے انہیں کہا کہ آپ نے اپنی سروس کی خاطر اتنا بڑا قدام کیا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ میں اکیلا نہیں تھا بلکہ دیگر ساتھی بھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو خود بھی یقین نہیں تھا کہ ہم ملک پر قابض ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کہنا تھا کہ جب اچھا وقت تھا تو کہتے تھے نواز شریف قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب غائب تھے ، ان کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کے اقدام پر احتجاج ہوگا ۔ اسی طرح دو