کراچی (این این آئی)پاکستان کے کمرشل بینکنگ سیکٹر کی جانب سے سروسز کے نام پر کھاتہ داروں سے سالانہ اربوں روپے وصول کرنے پر وفاقی وزرات خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے چپ سادھ لی ۔کچھ بینک کھاتہ داروں کو اے ٹی ایم کے لئے مجبور کرتے ہیں جس کی فیس وہ 2000سے 20000 تک وصول کررہے ہیں ۔صارفین نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سروسز کے نام پر کی جانے والی اس لوٹ مار کا نوٹس لیا جائے ۔
تفصیلات کے مطابق کمرشل بینکنگ سیکٹر کی جانب سے صارفین کو اے ٹی ایم کارڈز ،کریڈیٹ کارڈ ،چیک بکس ،آن لائن ٹرانزیکشن کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاہم ان سروسز کے نام پر کھاتہ داروں سے سالانہ اربوں روپے وصول کیے جارہے ہیں ۔صارفین کا کہنا ہے کہ بینکوں کی جانب سے انہیں کیٹگریز کے نام پر لوٹا جارہا ہے ۔سلور ،گولڈ ،پلاٹنیم سمیت مختلف کیٹگریز متعارف کرائی گئی ہیں جن کی سالانہ فیس ہزاروں روپے وصول کی جاتی ہے ۔صارفین کے مطابق کچھ بینک کھاتہ داروں کو اے ٹی ایم کے لئے مجبور کرتے ہیں جس کی فیس وہ 2000سے 8000 تک وصول کرتے ہیں۔
جس میں وہ لمٹ کے نام پر کھاتا داروں کو لوٹتے ہیں۔صارفین کا کہنا ہے کہ بینکنگ سیکٹر کو یہ کھلی چھوٹ اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کی گئی ہے جو کھاتہ داروں کا تحفظ کرنے میں ناکام نظرآتا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کمرشل بینکنگ سیکٹر میں کچھ بڑے کاروباری خاندانوں کی اجارہ داری ہے جو ملک سے غربت کے خاتمہ کے لیے متوسط طبقہ کو آسان شرائط پر قرضہ دینے کی بجائے صرف اپنے پروجیکٹس کے لیے قرض فراہم کرتے ہیں ۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مانیٹرنگ نہیں کی جاتی ہے ۔اسٹیٹ بینک کو دیکھنا چاہیے کہ کمرشل بینک صارفین کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ۔صارفین کا کہنا ہے کہ بینکس کریڈٹ کارڈ کا ڈیو اکائونٹس کا 3 فیصد ٹیکس لیتے ہیں جو کہ بینک کے انٹرسٹ ریٹ کا ڈبل سے بھی زیادہ ہے ا ور پھر یہ لیٹ فیس، فنانشل چارج اور کارڈ ایکسپائری پر رینوول فیس 20ہزار روپے تک چارج کی جاتی ہے ۔صارفین کا کہنا ہے کہ لوگ پیسوں کے تحفظ کے لئے بینک کا رخ کرتے ہیں اور کھاتہ داروں کی اس مجبوری کا فائدہ کمرشل بینک اٹھا رہے ہیں ۔انہوںنے وفاقی وزرات خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ کمرشل بینکوں کی جانب سے سروسز کے نام پر کی جانے والی اس لوٹ مار کا فوری نوٹس لیا جائے ۔