نئی دہلی (این این آئی)بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی صورت میں اپنے اہم اثاثے کو کھونے کے بعد بھارت میں اوپر سے نیچے تک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اب بھارتی میڈیا کے ذریعے الزام عائد کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں رجیم چینج یعنی حکومت کی تبدیلی کا کارنامہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے انجام دیا ہے۔بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی انٹیلی جنس رپورٹس میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت گرانے کا ذمہ دار پاکستانی کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ہے۔
حال ہی میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کا باعث بننے والے کوٹہ سسٹم پر بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے۔اس حوالے سے بھارتی میڈیا نے مبینہ بنگلہ دیشی انٹیلی جنس رپورٹس کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ احتجاج اور حکومت گرانے کا یہ سارا بلیو پرنٹ لندن میں آئی ایس آئی کے تعاون سے تیار کیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے قائم مقام سربراہ طارق رحمان اور خالدہ ضیا کے بیٹے اور آئی ایس آئی کے حکام کے درمیان سعودی عرب میں ملاقاتوں کے شواہد موجود ہیں۔بھارتی اخبار ”انڈیا ٹوڈے” نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا مقصد حسینہ واجد کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا اور اپوزیشن جماعت بی این پی کو بحال کرنا ہے جو کہ پاکستان کی حامی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ چین نے بھی آئی ایس آئی کے ذریعے مظاہروں کو بڑھانے میں کردار ادا کیا جس نے بالآخر حسینہ کو ہندوستان فرار ہونے پر مجبور کیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے طلبا ونگ اور ‘آئی ایس آئی کی حمایت یافتہ’ اسلامی چھاترا شبیر (آئی سی ایس) نے مظاہروں کو ہوا دی اور اسے حسینہ کی جگہ ایک ایسی حکومت لانے کی پرعزم کوشش میں بدل دیا جو پاکستان اور چین کے لیے دوستانہ ہو۔جماعت اسلامی جو کہ اپنے بھارت مخالف موقف کے لیے مشہور ہے، اس کا مقصد طلبا کے احتجاج کو سیاسی تحریک میں تبدیل کرنا تھا۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی چھاترا شبیر کے ارکان نے کئی مہینے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔بھارتی میڈیا نے بنگلہ دیشی انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس فنڈنگ ??کا ایک اہم حصہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی اداروں سے آیا ہے۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ بنگلہ دیش کے مظاہروں کے دوران سوشل میڈیا پر عوامی لیگ کے خلاف زیادہ تر پوسٹس، مظاہرین کے خلاف تشدد کی ویڈیوز اور شیخ حسینہ کی تذلیل والے پوسٹرز بی این پی اور اس سے منسلک اکاؤنٹس تیار کر رہے تھے۔
ان میں سے ایک بڑا حصہ امریکہ میں قائم اکاؤنٹس سے پوسٹ کیا گیا تھا۔ان مظاہروں کی جڑیں ایک متنازع کوٹہ سسٹم میں پیوست ہیں جس میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی کے سابق فوجیوں کے اہل خانہ کے لیے 30 فیصد تک سرکاری ملازمتیں مختص تھیں۔اگرچہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملازمتوں کے کوٹے کو 5 فیصد تک کم کر دیا، لیکن احتجاج نے ایک مختلف رخ اختیار کر لیا، مظاہرین نے حسینہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ 4 اگست کو مظاہروں نے شدت اختیار کرلی کیونکہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔پیر کو حسینہ نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے عہدے سے استعفا دے دیا اور فوج نے کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ہی ملک چھوڑ دیا۔منگل کو بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کردی اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کی رہائی کا حکم بھی دیا۔