اسلام آباد(نیوزڈیسک) کمپیوٹر کی ترقی نے انسان کو بے شمار صلاحیتیں اور قوت دے دی ہے اور یہ سفر رکا نہیں بلکہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اسی لیے ایک سائنس دان نے دعویٰ کیا ہے کہ انسانی دماغ میں چھوٹا سا روبوٹ فٹ کرکے اسے انٹرنیٹ سے کنیکٹ کردیا جائے تو اس میں غیر معمولی اور سپر نیچرل طاقت اور ذہانت پیدا ہوجائے گی۔گوگل کی کے لرننگ پراجیکٹس پرکام کرنے والے اورمستقبل کو اپنی انگلیوں پر گننے والے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان رے کرزویل کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے پرکام کررہے ہیں کہ انسانی دماغ میں نینو روبوٹ یعنی چھوٹا روبوٹ فٹ کرکے اسے کلاو¿ڈ بیسڈ کمپیوٹر نیٹ ورکس سے جوڑ دیا جائے تو اس میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہوجائیں گی جو غیرفطری اورحیرت انگیز ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ 2030 تک انسانی دماغ کے سننے اور دیکھنے والے خاص حصے ’نیوکارٹیکس‘ میں نینو روبوٹ کو لگا دینے کی ٹیکنالوجی پرکام مکمل ہوجائے گا جس کی بدولت انسانی دماغ براہ راست پوری دنیا سے لنک ہوجائے گا۔یونیورسٹی آف موفیٹ فیلڈ کیلیفورنیا کی ایک تقریب سے خطاب میں میں ان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کی بدولت انسان کے جذبات اور تخلیقی صلاحیتوں کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے، یہ صلاحیت انسانی دماغ میں موجود معلومات اور صلاحیتوں کو کلاو¿ڈ کی مدد سے کئی گنا بڑھا دے گی اور یوں مصنوعی ذہانت ( ا?رٹیفیشل انٹیلیجنس) کا استعمال کرتے ہوئے انسان میں سپر نیچرل طاقت اور صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خوبصورتی، محبت، تخلیق اور ذہانت سب کچھ نیوکارٹیکس (دماغ کے مخصوص حصے) میں جمع ہوتا ہے اور اب وہ اس کارٹیکس کو وسیع کرنے کے منصوبے کو مکمل کررہے ہیں تاکہ ان صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے جس کے نتیجے میں کوئی بھی انسان زیادہ تخلیقی، زیادہ مزاح نگار، بہترگلوکاراور اپنی محبت کے جذبے کا زیادہ اظہار کرنے جیسی بے شمار صلاحیتوں کا مالک بن جائے گا۔سائنس فنکشن فلموں میں انسانی جسم میں نینو مشینز لگانے کے مناظر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں جس سے انسانی دماغی صلاحتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہے جیسے ٹی وی سیریز اسٹار ٹریک میں انتہائی چھوٹے مالیکیولر روبوٹ انسانی جسم میں داخل کیے جاتے ہیں جو جسم کی تباہی کی صورت میں خلیوں کی مرمت کرکے اسے پہلے جیسا کردیتی ہے اسی لیے سائنسدان کرزویل کا کہنا ہے کہ اس تھیوری کے مطابق ڈی این اے کی مدد سے ایسے روبوٹ تیار کئے جا سکتے ہیں جسے دماغ میں انجیکٹ کرکے ویسی ہی صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔گزشتہ سال سانس دانوں نے اس طرح ڈی این اے ’اوری‘ گامی سے بنائے گئے روبوٹ لال بیگ میں لگا کر تجربات کیے جسے ابتدائی روبوٹ بنانے کی جانب پہلا قدم قراردیا گیا جس نے جسم کی مخصوص پروٹینز سے ٹکرانے کے بعد بنیادی لاجیکل آپریشنز انجام دیے۔ دوسری جانب کچھ سائنس دانوں نے ان نینو روبوٹ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان ڈیوائسز کی صلاحیت محدود ہو اور یہ زیادہ موثرثابت نہ ہوں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے میکینیکل انجینئر پروفیسرجیمس فرینڈ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پ±راسرار چیزوں کو دماغ جیسے نازک حصے میں انجیکٹ کرنا اور پھر اسے وہاں چھوڑدینا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔