جمعرات‬‮ ، 22 مئی‬‮‬‮ 2025 

پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا

datetime 10  جنوری‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور (این این آئی)پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔بدھ کو پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشدعلی نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس سید ارشد علی نے پوچھا الیکشن کمیشن نے کون سے سیکشن کے تحت اس پارٹی کے خلاف کارروائی کی، وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 215 کے تحت کارروائی کی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ الیکشن کا رزلٹ تو 7 دن کے اندر جمع کیا گیا ہے، وکیل درخواست گزار نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے دیکھنا تھا کہ سیکشن 208 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے، سب نے کہا کہ جو بانی پی ٹی آئی کہیں گے وہی ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دئیے کہ یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی خاندان کے لوگ چلاتے آرہے ہیں، شاید یہ واحد جماعت ہے جو ورکرز کو آگے آنے دے رہی ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفرنے شکایت کندہ کے وکلاء کے اعتراضات پر جواب دیتے ہوئے کہاکہ فریقین کے وکلاء نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوالات اٹھائے، دائر اختیارپر اصول کیا ہے وہ بتانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 199 ہائیکورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوئے جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اب الیکشن ہو رہے ہیں تو پورے ملک کیلئے ہیں، ہماری پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی اس صوبے سے ہیں۔جسٹس اعجاز انور نے سوال کیاکہ آپ کی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کون ہیں ؟جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایاکہ عمر ایوب جنرل سیکرٹری ہیں جن کا تعلق اس صوبے سے ہے،ماڈل ایان علی کے خلاف کیس راولپنڈی میں تھا،اسے کراچی ائیرپورٹ پرگرفتار کیا گیا تھا، اس وقت بھی ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایاکہ ایان علی کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے، شکایت کنندہ کی شکایات بد نیتی پر مبنی ہیں، شکایت کنندہ دوبارہ انتخابات نہیں پارٹی ختم کرنا چاہتے ہیں،الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد یا پشاور ہائیکورٹ کہیں بھی چینلج ہو سکتا ہے، اس صوبے میں 2 بار پی ٹی آئی نے حکومت بھی کی ہے، یہ کہنا کہ پارٹی آفس اسلام آباد میں ہے کیس یہاں نہیں ہو سکتا غیر مناسب ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر مہمند نے اپنے دلائل میں کہاکہ کاغذ لہرا کر کہا گیا یہ پارٹی چیئرمین ہے اوریہ نتائج ہیں،یہ غیرقانونی انٹرا پارٹی انتخابات پر کہتے ہیں کہ ہمیں انتخابی نشان دیں جبکہ وکیل شکایت کنندہ کا کہنا تھا سب نے کہا جو بانی پی ٹی آئی کہیں گے وہی ہوگا۔جسٹس ارشد علی نے کہاکہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 208 کے تحت انٹراپارٹی انتخابات ہوتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 کی سب سیکشن 2015 کے تحت کیسے پارٹی نشان واپس لیا گیا جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 209 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات فارم 65 کو صرف دیکھنا نہیں مطمئن ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے، پی ٹی آئی والے الیکشن کمیشن کو ایک ریکارڈ کیپر سمجھتے ہیں، الیکشن کمیشن ایک ریگولیٹری باڈی ہے جو انٹرا پارٹی انتخابات کو دیکھ سکتی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ سیکشن 209 میں ہے کہ پارٹی چیئرمین کا فارم 65 اقرار نامہ ہے کہ پارٹی انتخابات پارٹی کے آئین کے تحت ہوئے، انتخابی نشان صرف انتخابات کے وقت پارٹی کے پاس ہوتا ہے، انتخابات کے بعد چار سال یہ نشان الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے، انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد پارٹی انتخابی نشان مانگتی ہے، الیکشن شیڈول جاری ہوتا ہے تو پھر انتخابی نشان الاٹ ہوتے ہیں، کل اورپرسوں انتخابی نشانات الاٹ کیے جائیں گے، الیکشن ہونے کے بعد سیاسی جماعت کا نشان سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزاروں، الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی وکلاء کے دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور انتخابی نشان کی حقدار ہے۔یاد رہے کہ22 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلے سے محروم کر دیا تھا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کیفیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔جسٹس کامران حیات نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر26 دسمبرکو حکم امتناع جاری کیا تھا، پشاور ہائیکورٹ نے حکم امتناع میں پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کردیا تھا اور چھٹیوں کے بعد 9 جنوری کو ڈویڑن بینچ کو کیس سننے کا حکم دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے 30 دسمبر کو حکم امتناع کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی، 3 جنوری کو جسٹس اعجاز خان پر مشتمل سنگل بینج نے حکم امتناع کو ختم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا تھا جس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے دوبارہ اپیل دائر کی تھی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ملک ریاض کی آخری خواہش


مجھے چند دن قبل دوبئی جانے کا اتفاق ہوا‘ ملک…

کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل واپس نہ لیا گیا تو سڑکوں پر آئیں گے، فضل الرحمن

اسلام آباد (این این آئی)جمعیت علما اسلام کے سربراہ…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…