جمعرات‬‮ ، 24 اپریل‬‮ 2025 

ہماراذہن یادوں کو کیسے محفوظ رکھتا ہے ؟

datetime 29  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوز ڈیسک )کراس حقیقت سے تو ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارا ذہن تمام تر یادوں کو محفوظ رکھتا ہے۔پس جب ہم کسی خاص چیز کے متعلق سوچتے ہیںتو اس چیز سے جڑی تمام باتیںکسی محرک فلم کی مانند دماغ میں گردش کرنے لگتی ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دماغ ان تمام یادوں کو کس طرح محفوظ رکھتا ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کی نیوروسائنٹسٹ پریا راجسے تپتھی اس سوال کا جواب تلاش میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مس تپتھی نے پہلی باردماغ کی یادوں کو کنٹرول کرنے والی مشینری پر تحقیقات کیں۔انکی سب ذیادہ چونکا دینے والی اور متنازعہ قرار دی گئی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پائیدار یادیں ہمیشہ ڈی این اے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔راجسے تپتھی نے اپنی تحقیق کے مکمل ہونے کے بعد ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سائنسدا ن بننا نہیں چاہتی تھیں اگرچہ انھیں سائنسدانی والد کی طرف سے وراثت میں ملی تھی۔واضح رہے راجسے تپتھی کے والد کمپیوٹر کے سائنسدان ہیں۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے پری میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے کورنیل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔تین سال میں گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد ذہنی مریضوں کا علاج کرتی رہی۔بعد ازاں ایک سال کیلئے رضا کارانہ طور پر بھارت میں کام کرنے کیلئے چلی گئیں۔اسی سال کے دوران انھوں نے بنگلور کے نیشنل سینٹر میں عصبی اور حیاتیاتی سائنس پر تحقیقات کیں۔تحقیقات کے دوران وہ پتہ لگانے میں پہلی بارکامیاب ہوئیں کہ مائیکرو آر این اے کے چھوٹے مالیکیول جو پروٹین کی پیداوار کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ دماغ میںیادوں کو قابو میں بھی رکھ سکتے ہیں۔بعد ازاں انھوں نے کولمبیایونیورسٹی سے ایم ڈی اور پی ایچ ڈی کرنے کے دوران بھی اپنی توجہ اسی نقطے پر مرکوز رکھی۔رپورٹ کے مطابق2009ئ میں انھو نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے سلگ کے عصبی خلیات میں پایا جانے والا مائیکروآر این اے دریافت کر لیاجو دماغ میں یادوں کو 24گھنٹے تک ترتیب دینے میں مدد دیتا ہے۔علاوہ ازیں راجسے تپتھی اور انکے ساتھی تحقیق کے دوران سلگ کے عصبی خلیات میں پایا جانے والاپی آئی آر این اے بھی دریافت کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پی آئی آر این اے، مائیکرو آر این کے مقابلے میں تھوڑا بڑا ہوتا ہے اور پروٹین کی پیداوار کو روکتا ہے جو یاداشت کو مضبوط کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔راجسے تپتھی کامزید کہنا ہے کہ انھوں نے میڈیکل کے شعبے کو خیر باد کہہ دیا ہے تاکہ اپنی تمام تر توجہ یاداشت سے متعلق تحقیقات پر مرکوز رکھ سکیں۔



کالم



Rich Dad — Poor Dad


وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…