لندن(نیوزڈیسک)لندن کی ایک عدالت میں ایک سینیئر جج نے اپیل کی سماعت کے دوران ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایشیائی کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے والے شخص کو معمول سے سخت سزا دینے کا فیصلہ درست تھا۔برطانوی میڈیا کے مطابق لندن رائل کورٹ میں اپیل کی سماعت کے بعد سینیئر جج جسٹس واکر نے مجرم کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ کیونکہ متاثرہ لڑکی کا تعلق ایشیائی کمیونٹی سے ہے لہذا اسے مستقبل میں اس ناکردہ گناہ کی مجرم سے زیادہ سخت سزا برداشت کرنی پڑے گی۔جمال محمد رحیم الناصر کو گزشتہ برس لیڈز کراون کورٹ نے دو کم عمر لڑکیوں جن کی عمریں 9 اور 14سال تھیں، کے ساتھ جنسی تعلقات اور زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر 7سال کی قید کی سزا سنائی تھی لیکن مجرم نے اس فیصلے کےخلاف لندن کریمنل اپیل کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی، مجرم ناصر کے وکلاءنے شکایت کی تھی کہ جج نے ایک غیر منصفانہ فیصلے کے تحت مجرم کو طویل سزا سنائی تھی۔ اخبار ڈیلی میل کے مطابق لندن کریمنل کورٹ میں ناصر کے وکلاءنے اپنی دلیل میں کہا کہ مجرم کی سزا غیر منصفانہ ہے تاہم ان کی درخواست جسٹس واکر نے یہ استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ انھیں لڑکی کے والد نے بتایا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں جنھیں اس واقعے کے بعد کمیونٹی سے کوئی بیاہنے کے لیے نہیں آئے گا۔ لندن رائل کورٹ آف جسٹس میں سماعت کے دوران جسٹس واکر نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جج سیلی کے ہل نے ایک غلط نقطئہ آغاز اپنایا ہے جب کہ ان کا کہنا تھا کہ سزا کے خلاف اپیل کی اجازت کی درخواست کو نامنظور کیا جانا ضروری ہے۔جج واکر کے اس فیصلے کو بچوں کی ایک خیراتی تنظیم (این ایس پی سی سی) کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ انصاف کو متاثرین کی نسل کے حوالے سے اندھا ہونا چاہئے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ ہر بچہ جنسی استحصال سے محفوظ ہونے کا حق رکھتا ہے اور عدالتوں سے اس کی عکاسی ہونی چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ جو لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں انھیں قانون کی طرف سے کڑی سے کڑی سزا سنائی جائے۔جج سیلی کے ہل جنھوں نے مجرم کو سات سال کی جیل کی سزا سنائی تھی، خاص طور اپنے فیصلے میں وضاحت کی تھی کہ حقیقت یہ ہے کہ متاثرین ایشیائی ہیں اور یہ فیصلہ اس لیے سخت ہے کہ لڑکیوں کو مستقبل میں اس واقعہ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔انھوں نے کہا تھا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو گیا ہے، اس پر متاثرہ لڑکی اور خاندان کو اپنی کمیونٹی میں بدنامی اور شرم کا سامنا ہے مزید برآں ایسے ثقافتی خدشات موجود ہیں کہ مستقبل میں لڑکیوں کی شادی کے لیے رشتہ ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔ناصر کے وکلاءنے اپنی دلائل میں کہا کہ ناصر کو اس کے مذہب اور نسل کی بنیاد پر ایک طویل سزا سنا دینا کا فیصلہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔