کراچی(نیوز ڈیسک) الطاف حسین جنہوں نے 30برسوں تک شہری سندھ کی سیاست میں حکمرانی کی ، اب عملی طور پر ان پر سیاست کرنے پر ’پابندی ‘ عائد ہوچکی ہے۔ ان کے بیانات اور تصاویر شائع ہوسکتی ہیں اور نہ ہی ان کی فوٹیج نشر ہوسکتی ہے۔ جنگ رپورٹر مظہر عباس کے مطابق ان کی اپنی جماعت ایم کیوایم نے اتوار کے روز ہونیوالی ریلی میں میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ان کی تصاویر اویزاں نہیں کیں ، اس عمل کی پارٹی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تو اب کوئی پسند کرے یا نہ کرے لیکن مائنس الطاف فارمولے پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ یہ اب ایم کیو ایم کی صوابدیدہےکہ وہ اسے تسلیم کریں یا مسترد کردیںاور الطاف حسین پر منحصر ہےکہ پارٹی قیادت چھوڑیں یا نہ چھوڑیں۔ یہ تمام صورتحال ان کے اور انکی جماعت کیلئے مایوسی کی بات ہے ، کیونکہ دونوں کو سیاسی تنہائی کا سامنا ہے اور اس ضمن میں انہیں فوری طور پر عارضی تسکین بھی میسر نہیں ہے۔ اب ایم کیوایم کے قائد کیلئے کون سے راستے باقی بچے ہیں؟ ایم کیو ایم کی جانب سے گزشتہ ہفتے ہڑتال اور اس کے بعد ریلی میں ملا جلا رجحان سامنے آیا ، تاہم3دسمبر کو کراچی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات سے قبل زمینی صورتحال جاننے کیلئے اس سے واقعی انہیں مدد ملی۔ ایم کیو ایم اکتوبر اور نومبر میں شہری علاقوں میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں بھی بہتر کارکردگی دکھانے کی خواہاں ہے۔ آئندہ ماہ جب ایم کیوایم بلدیاتی انتخابات میں شرکت کریگی تواس میں ماضی کے برخلاف ایک فرق ہوگا، اور وہ یہ کہ کسی عوامی اجتماع میں ایم کیو ایم کے قائد کا خطاب نہیں ہوگا، کیونکہ آئندہ ہفتوں میں مسائل بڑھنے والے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ جوکہ حال ہی میں لندن سے واپس آئے، وہ الطاف حسین کیلئے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آئے، بلکہ انہوں نے برطانوی حکام سے ان کے لندن سے خطابات پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے تبادلہ خیال کیا، اور اس ضمن میں انہوں نے ان کے کچھ خطابات کے کلپس اور پارٹی کارکنوں سے فون پر کی جانیوالی ریکارڈڈ گفتگو کی ٹیپس فراہم کیں۔ ایسی بھی کچھ اطلاعات ہیں کہ پاکستان مجرموں کی حوالگی کے کسی باضابطہ معاہدے کے بغیر عمران فاروق کے قتل کے مقدمے میں انتہائی مطلوب ملزم کو برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ پولیس کے حوالے کرنے پررضامند ہے۔ جہاں تک تحقیقات کا تعلق ہے منی لانڈرنگ کے ساتھ عمران فاروق قتل کیس بھی حتمی مراحل میں ہے، اگر چہ باضابطہ ٹرائل میں مہینوں یا سال بھی لگ سکتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس جس میں الطاف حسین ملزم ہیں ، اس کی سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ہوگی اور ان کے اور انکی پارٹی کیلئے اس کی اہمیت ہے۔ دونوں کیلئے یہ بات اہم ہےکہ اور وہ واقعی یہ امید کررہے ہونگے کہ انہیں فرد جرم کا سامنا نہ کرناپڑے۔ الطاف حسین کو مہلت نہ دینے کا فیصلہ بالخصوص ان کی نیٹواور را کے بارے میں کیے جانیوالے خطاب کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا، حالانکہ اس خطاب کے بارے میں ایم کیو ایم کے رہنما سمجھتے ہیں کہ اسے غلط سمجھا گیا اور وہ کسی اور سیاق و سباق میں تھا۔ الطاف حسین کی متنازع تقریروں نے انہیں اور ایم کیو ایم کو سخت نقصان پہنچایا، جس کے بعد ان پر مقدمات بننے کا سلسلہ شروع ہوا اور بالاآخر ان کے براہ راست خطاب کی کوریج پر اور بعد میں ریکارڈڈ تقاریر اور انٹرویوزپر اب مکمل طور پر پابندی عائد ہوچکی ہے ، اور ان کے ساتھ عملی طور پر کالعدم جماعت کے رہنما کے جیسا رویہ اختیار کیا جارہاہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کے فیصلے قبل ان کےخطابات سے مسائل شروع ہوئے تھے ، اور اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا ایم کیوایم نے فیصلہ کیا۔یہاں تک کہ میڈیاپر ان کے خطابات کوکچھ وقفے سے نشر کرنے کیلئے میڈیا کو دباوکا سامنا ہےاور اس ضمن میں کی جانیوالی اپیل میں نتائج کی بھی پروا نہیں کی جارہی۔ وفاقی حکومت اور رینجرز کے کچھ اعلیٰ ترین عہدیداروں سے ملاقات کرکے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ اب الطاف حسین کے ملکی سیاست میں واپسی کے امکانات بہت معدوم ہیں۔ ان کی پاکستان واپسی کی بھی امید بہت کم ہے۔ رینجرز نے ایم کیو ایم کے مشتبہ رہنماوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے ا?ئی ٹیز)کو بھی اکھٹا کرلیا ہے ، جس کے باعث بھی الطاف حسین اور انکی پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایم کیو ایم کے دفاع میں کہیں اور سے نہیں بلکہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف پی پی رہنما چوہدری اعتزاز احسن کی جانب سےاواز اٹھائی گئی ، انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کو نشانہ بنانے کا عمل قرار دیا، لیکن انہوں نے الطاف حسین کا دفاع کرنے سے اجتناب کیا۔ ان کا بیان ایم کیو ایم کے لیے امید کی کرن ہے ، جس کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کا معاملہ ابھی تک بیچ میں لٹکا ہوا ہے ، کیونکہ ان کے استعفے ابھی تک منظور ہوئے اور نہ ہی ان کے ارکان اسمبلیوں او رسینیٹ میں واپس آئے۔ شاید حکومت پر ان سے مذاکرات کے دوبارہ آغاز نہ کرنے اور انکے استعفے بھی قبول نہ کرنے کیلئے دباو ہے۔ پی پی کےرہنما نے سندھ حکومت کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کارروائیوں پر بات کی ، انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف بھی کچھ کارروائیوں کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ سابق صدر زرداری کی طرح ایم کیو ایم کے قائد نے بھی قومی ایکشن پلان کے بعد کی صورتحال کے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ زرداری صاحب سے زیادہ الطاف حسین کیلئے مسائل سنگین ہیں اور ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے ساتھ محاز آرائی کے آغاز نے صورتحال کو بدتربنادیا، انہوں نے اس ضمن اس بات کا احساس بھی نہیں کیا کہ پی پی سے محبت و نفرت کے تعلقات کے باوجود زرداری صاحب اور رحمٰن ملک نے اپنے دور میں ان کی مدد ضرور کی۔ الطاف حسین نے لندن میں 25سال از خود جلاوطن رہنے کے دور میں پارٹی کے ہزاروں کارکنوں اور حامیوں کے اذہان پر حکمرانی کی اور غالب سیاسی شخصیت بنے رہے۔ لیکن آج انہیں مکمل سیاسی تنہائی کا سامنا ہے ، تمام صورتحال ایم کیو ایم کی قیادت کیلئے مایوس کن ہے اور مسائل پید ا ہورہے ، انہیں کون سے راستے میسر ہیں؟ آج الطاف حسین کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا ہے ، جوکہ اس وقت نچلی ترین سطح پر ہیں۔ تمام صورتحال نے انہیں پارٹی قیادت چھوڑنے کا مشکل ترین فیصلہ کرنے کیلئے بہت زیادہ دباوآ میں ڈال دیا ہے۔ الطاف حسین کے بعد پارٹی کس طرح باقی رہے گی کیونکہ گزشتہ 30سال سے یہ ان ہی گردگھوم رہی ہے۔ ان کے سیاسی سفر کے ماضی کی جھلکیوں سے معلوم ہوتا ہےکہ الطاف حسین متوسط طبقے سے ابھر کر سامنے آئے۔ تین دہائیوں تک وہ مہاجر سیاست پرغالب رہے، لیکن حالات، اپنی کوتاہیوں اور پارٹی کے اندر اور باہر سے سازشوں کا شکار ہوگئے۔ الطاف حسین کی سیاست میں اچھے اور برے فیصلے دونوں ہیں۔ ان کا ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نفرت و محبت کا تعلق رہا، جس نے کئی مرتبہ اسے استعمال بھی کیا۔ چاہے 1988میں پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی ہو، اسٹیبلشمنٹ نے مبینہ طور پر بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اسے استعمال کیا، اگرچہ یہ تحریک ناکام ہوئی لیکن بالاآخرپی پی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنی۔ بعد میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے اسے مضبوط اتحاد ی کے طور پر استعمال کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ان کے بارے میں روئیے کے حوالےسے الطاف حسین سے زیادہ بہتر اور کون جان سکتا ہے۔ 1980کی دہائی کے بعد کی تمام سازشوں کے وہ گواہ ہیں، لیکن ا?ج وہ اسٹیبلشمنٹ کے نظروں میں ملزم ہیں۔ تاہم ایم کیوایم اور اسکے قائد کیلئے سب سے بڑا دھچکا یہ ہےکہ وہ تیزی سے اچھے لوگوں کو کھورہے ہیں۔ گزشتہ 2 سالوں میں ایم کیو ایم میں اختلاف میں اضافہ ہوا، اور یہی وجہ ہےکہ الطاف حسین بظاہر دباومیں نظر اتے ہیں۔ 2013کے انتخابات کے بعد وہ قابل ذکر رہنماوں جیسے مصطفیٰ کمال، گورنر سندھ عشرت العباد، سابق قائد حزب اختلاف اور رکن صوبائی اسمبلی فیصل سبزواری، انیس قائم خانی ، انیس ایڈ وکیٹ، سلیم شہزاد، رضاہارون، فیصل عباس سے محروم ہوئے۔ یہ خود الطاف حسین کیلئے ایک بہت مایوس کن صورتحال ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی کے تعلقات اچھے یا برے یا ان میں اتار چڑھاو? اسکتا ہے لیکن اگر اہم رہنما رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین کی پالیسیوں پر الزامات عائد کرکے پارٹی چھوڑنا شروع کردیں تو وہ خود اس صورتحال کو سنگین سمجھتے ہیں۔ 1980کی دہائی کے اغاز میں کچھ ایسے عوامل تھے جن کے باعث پارٹی کو مقبولیت حاصل ہوئی اور الطاف حسین کا شمار ملک کے مقبول ترین رہنماوں میں ہونے لگا، لیکن کچھ غلطیوں اورپالیسیوں کی طرز نےانہیں اور پارٹی کو مشکلات میں ڈالا۔ کچھ انتخابات بالخصوص 1987 کے بلدیاتی انتخابات سے 1993کے انتخابات تک عوامی سطح پر ایم کیو ایم کی مقبولیت پر کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ یہاں تک کہ ایم کیوایم کے بدترین ناقدین ا?ج بھی عوام کی جانب سے اسکی انتخابی حمایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اب وقت ا?چکاہےکہ الطاف حسین اس امر پر غور کریں کہ انہوں نے اپنی سیاست میں کیا غلط کیا، جس کے باعث انہیں ان حالات کاسامنا کرنا پڑا، جس میں وہ سیاسی تنہائی کاشکار ہیں ، اور آج انکی پارٹی کے چند دیرینہ اور معتبر ترین رہنماوں کو ان کی طرز سیاست پر شدید تحفظات ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد کے پاس پارٹی میں مکمل طور پر اصلاحات کرنے، اسے شفاف بنانے ،زیادہ جمہوری بنانے، بدعنوانی اور عسکریت پسندی سے پاک کرنے، ماضی سے سبق سیکھنے اور ملکی سطح کی سیاست میں دوبارہ واپسی کیلئے زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا۔ اسی طرح وہ پارٹی کو بچا سکتے ہیں اور اس کے قائد برقرار رہ سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو اپنی سیاسی بنیاد کو دوبارہ قائم کرنے کیلئے حیدر آباد اور کراچی میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنی ہے۔ کیاوہ یہ دوبارہ کرسکتے ہیں، اور عوامی اعتماد دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں، موجودہ حالات میں یہ انتہائی اہم سوال ہے